ملکہ وکٹوریا بھی اردو کی شیدائی نکلیں!

جلد آنے والی فلم ’’وکٹوریا اینڈ عبدل‘‘ کےایک سین میں جوڈی ڈینچ اور علی فضل
جلد آنے والی فلم ’’وکٹوریا اینڈ عبدل‘‘ کےایک سین میں جوڈی ڈینچ اور علی فضل
user

قومی آواز بیورو

برسوں کی تحقیق کے بعد لکھی گئی ’’Victoria & Abdul: The True Story Of The Queen’s closest confidant‘‘ وہ اہم کتاب ہے جو اگر نہ لکھی گئی ہوتی تو ملکہ وکٹوریا اور ان کے ایک ہندوستانی ملازم عبدالکریم کے انوکھے رشتے کی دلچسپ کہانی کہیں گم ہو گئی ہوتی ۔ وکٹوریا اور عبدل کے جذباتی رشتہ کو جلد ہی سلور اسکرین پر بھی دیکھا یا جائے گا کیونکہ اس موضوع پر ایک فلم بن رہی ہے ۔ وکٹوریا اور عبدل پر مبنی کتاب لندن میں مقیم ایک بنگالی صحافی اور مورخ شربانی باسو نے تحریر کی ہے۔شربانی کے ساتھ گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملکہ وکٹوریا اردو کی زبردست شیدائی تھی اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عبد الکریم سے اردو سیکھی تھی۔

ہندوستان میں موجود عام تصور کے خلاف آپ کی کتاب سے یہ پتہ لگتا ہے کہ ملکہ وکٹوریا کو ہندوستان سے لگاؤ تھا۔ اس تعلق سے کچھ اور بتائیں گی؟

جب میں نے ریسرچ شروع کی تو ملکہ وکٹوریا کے بارے میں جو میرا تصور تھا وہ یہ تھا کہ وہ پر اعتماد شخصیت کی مالک ہیں، جو کالے کپڑے پہنتی ہیں اور  سلطنت کی نمائندگی کرتی ہیں جنہوں نے بغاوت کو کچلااور کوہ نور ہیرہ پر قبضہ کیا ۔ لیکن جب میں نے خطوط اور میگزین کی ورق گردانی کی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ کتنا زیادہ ہندوستان اور ہندوستانیوں سے محبت کرتی تھیں۔ شاہی گھرانے اور اپنے خاندان کے مقابلے میں وہ ہندوستانیوں کی دفاع کرتی تھیں ۔جب ان کو یہ احساس ہوتا تھا کہ ان کے لوگ نسل پرستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو وہ اپنے لوگوں کو سخت نوٹس بھیجتی تھیں ۔ میری کتاب میں ایک مختلف قسم کی ملکہ وکٹوریا سامنے آتی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ اپنے وقت سے بہت آگے تھیں اور وہ اپنے دربار اور انتظامیہ سے بہت مختلف تھیں۔ قابل ذکر حقیقت یہ ہےکہ شاہی دربار میں ایک نوجوان دل تھا۔ ایسا نہ تو پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ ہی اس کے بعد کبھی ہوا۔

(بائیں سے دائیں) ایڈی ایزارڈ، علی فضل، شربانی باسو اوراسٹیفن فریرز ایک پروگرام میں فلم کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے
(بائیں سے دائیں) ایڈی ایزارڈ، علی فضل، شربانی باسو اوراسٹیفن فریرز ایک پروگرام میں فلم کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے

تو کیا عبدل الکریم ملکہ وکٹوریہ کے لئے ہندوستان کی کھڑکی تھا؟

لمبے سمندری سفر کی وجہ سے ملکہ وکٹوریا  ہندوستان نہیں جاسکیں، لیکن  ہندوستان ان کے پاس عبدل کریم کی شکل میں موجود تھا ۔ اس نے ملکہ کو تاج محل کی خوبصورتی اور ہندوستانی تیوہاروں  کے بارے میں بتایا ۔ اس نے کھانا بنایا اور ملکہ کو اردو بھی سکھائی۔ اس نے ہندو-مسلم فسادات اور سیاسی تناؤ کے بارے میں بھی بتایا  جس کی وجہ سے ان کو حقیقی ہندوستان  کو اندر تک دیکھنے کا موقع ملا۔


آپ نے ذکر کیا کہ کس طرح باقی شاہی گھرانے کے لوگوں کو عبدل اور دیگر ہندوستانیوں سےتعصب تھا اور ان کو ’کالی بریگیڈ ‘ کے طور پر بلایا جاتا تھا ۔ کیا عبدل کا ذاتی عقیدہ بھی اس کی وجہ تھا؟

گھرانہ عبدل سے اس لئے نفرت کرتا تھا کیونکہ وہ ایک ہندوستانی تھا اور غلام نسل سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے باوجود ملکہ نے عبدل  کو انتہائی اہم پوزیشن (ذاتی سیکریٹری ) پر رکھا ہوا تھا۔ وہ اس لئے بھی نفرت کرتے تھے کیونکہ وہ ایک عام انسان تھا اس لئے نسل اور کلاس کا بھی معاملہ تھا ۔ وہ اس بات سے بھی حسد کرتے تھے کہ ملکہ اس  پر تحائف کی بارش کر رہیں تھیں ، زمین دے رہیں تھیں، مکان دے رہیں تھیں اور  ٹائٹل بھی  دئے تھے۔ انگریز انتظامیہ مسلمانوں کے تعلق سے مشکوک تھا کیونکہ ان کو احساس تھا کہ بغاوت آخری مغل بادشاہ کے نام پر ہوئی تھی۔ انہوں نے کریم پر الزام لگانے کی کوشش کی کہ وہ افغانستان کےامیر (بادشاہ) کا جاسوس ہے کیونکہ اس کے مسلم پیٹریو ٹک لیگ میں دوست ہیں ۔ جب وہ چھٹیوں میں ہندوستان  گیا تو انہوں نے اس کا تعاقب بھی کروایا مگر ان کو کچھ ملا نہیں۔ جب سارے حربے ناکام ہو گئے تو انہوں نے دھمکی دی کہ اگر ملکہ نے ایک منشی کی حمایت کی تو وہ اجتماعی طور پر استعفی دے دیں گے ۔

ہندوستان کو جاننے کے لئے ملکہ نے اردو سیکھی۔ لیکن آج کچھ ہندوستانی اردو کو  یہ کہہ کر  چھوڑ رہے ہیں کہ یہ غلاموں اور دوسروں کی زبان ہے ۔ آپ کے خیالات اس سے مختلف ہیں ؟

میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک بہت ہی قابل ذکر بات ہے کہ ملکہ وکٹوریا نے 13سال تک اردو سیکھی ۔ یہ وکٹوریا دور کے حصہ کی وہ تاریخ ہے جس کے بارے میں کوئی جانتا ہی نہیں ۔ بہت افسوس ہو گا اگر اردو جیسی خوبصورت زبان کو ختم ہونے دیا جائے گا۔ یہ برطانیہ اور ہندوستان کی مشترکہ تاریخ کا وہ حصہ ہے  جو دونوں ممالک کو یاد رکھنا چاہئے۔


ہمیں ملکہ کے ہندوستانی مہاراجاؤ ں کے  ساتھ رشتوں کے بارے میں بھی کچھ بتائیں۔

ملکہ کے ہندوستانی مہاراجاؤں کے ساتھ بہت اچھے رشتے تھے۔ وہ اکثر ان سے ملنے بھی آتے تھے اور ملکہ کی جبلی تقریبات میں بھی مدعو کئے جاتے تھے۔ ملکہ ،جودھپور کے مہاراجہ سر پرتاب  کی بہت عزت کرتی تھیں۔  ملکہ  کو کوچ بہار کے مہاراجہ نریپیندرا نارائن اور ان کی اہلیہ سنیتا دیوی  سے بہت لگاؤ تھا۔ سنیتا دیوی پہلی مہارانی تھیں جو 1887کی گولڈن جبلی تقریبات میں بطور مہمان شرکت کرنے کے لئے برطانیہ گئی تھیں۔پنجاب کے آخری نوجوان حکمراں مہاراجہ دلیپ سنگھ  جو  پنجاب پر برطانیہ کے قبضے کے بعد ان کے ساتھ رہنے کے لئے گئے تھے  ان سے بھی ملکہ کے خصوصی رشتے تھے ۔ بعد میں دلیپ سنگھ باغی ہو گئے تھے لیکن ملکہ نے ان کی اہلیہ اور بچوں سے تعلق برقراررکھا۔ اپنی زندگی کے آخری حصے میں دلیپ سنگھ ملکہ سے ملنے فرانس گئے اور ان سے معافی مانگی ۔ ملکہ نے انہیں معاف کر دیا لیکن  اس سارے معاملے پر وہ بہت غمزدہ تھیں ۔

ہندوستانی وکٹوریا کو کس طرح کا حکمراں مانتے تھے ؟ کیا ا ن کو اس بات کا علم تھا کہ ہندوستان کے کچھ حصوں میں ان کے مجسموں کی بے حرمتی کی گئی تھی؟

بہت سارے ہندوستانی برطانوی انتظامیہ کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن وہ بادشاہ کی عزت کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی سب سے بڑی یادگار ’ وکٹوریا میموریل‘کولکتہ میں ہے۔ اس کو بنا نے کے لئے پیسہ ان کے انتقال کے بعد عوامی چندہ سے جمع کیا گیا تھا۔


آپ نے لکھا ہے کہ 1901میں ملکہ کے انتقال کے فوراً بعد کس طرح عبدل اور دیگر ہندوستانیوں کے ساتھ سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا تھا ۔ کیا یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آ ج بھی غیر سفید لوگوں کے ساتھ برطانیہ میں  اسی طرح کابرتاؤ کیا جاتا ہے؟

شاہ ایڈورڈ VIIنے وہ تمام خطوط جلا دئے جو ملکہ نے عبدل کو لکھے تھے اور اس کے گھر پر چھاپہ مارنے کا حکم دیا۔ دیگر ہندوستانیوں کی طرح عبدل کو بھی ملک چھورنے کے لئے کہا گیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک دم سے دربار سے رنگین پگڑیاں اور شاہی باورچی خانہ سے تمام  مغلئی کھانے غائب ہو گئے ۔یہ برطانیہ کے بریکسٹ کا کلاسک مظاہرہ تھا کہ ’بیرون ممالک کے لوگ واپس گھر جاؤ‘ ۔  نسل پرستی صرف برطانیہ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں آج بھی رائج ہے  اس لئے یہ کہانی آج کے دور سے بھی مطابقت رکھتی ہے ۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Sep 2017, 12:02 PM