’پولس والوں نے میرا سر پیروں سے دبا لیا اور ایس او نے منھ میں پیشاب کر دیا‘

معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پریس کاؤنسل آف انڈیا کی پانچ رکنی ٹیم ہفتہ کو متاثرہ صحافی کی تکلیف سننے پہنچی اور پورے واقعہ کی تفصیلی جانکاری حاصل کی۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

26 سال کا امت شاملی سے مظفر نگر روڈ پر بنت کے پاس والے ایک گاؤں جلال پور میں رہتا ہے۔ امت کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے اور اس کی ماں اکثر بیمار رہتی ہے۔ بدھ کی رات جب مال گاڑی کے پٹری سے اتر جانے کے بعد رپورٹنگ کرنے پہنچے امت کو جب جی آر پی نے پیٹ کر حوالات میں بند کر دیا تو اس نے صبح تک یہ بات اپنے گھر میں نہیں بتائی تھی۔ اگلے دن جب وہاٹس ایپ پر یہ ویڈیو دیکھا جانے لگا تو امت کے گھر والے ڈر گئے اور انھوں نے امت سے پوچھا کہ رات میں کیا کچھ ہوا تھا۔ امت ہمیں بتاتے ہیں کہ ’’ماں بیمار ہے اور والد کو میں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا، ان کا فون آیا تھا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ صحافیوں کے ساتھ جھگڑا ہو گیا ہے، میں دیر سے گھر آؤں گا۔‘‘

امت آج بھی گھبرایا ہوا ہے۔ پہلے وہ ٹیوشن پڑھا کر اپنا پیٹ پالتا تھا، اب صحافت کے اپنے کیریر پر بھی سنجیدگی سے سوچ رہا ہے۔ شاملی تحصیل میں اپنے وکیل پرتاپ راٹھوڑ کے چیمبر میں وہ اب کاغذی کارروائی کی تیاری میں مصروف ہے۔ اسے بری طرح پیٹنے والے جی آر پی کے تھانہ انچارج راکیش کمار کے خلاف سنگین دفعات میں رپورٹ درج ہو چکی ہے۔


امت کے چہرے سے اس کے اندر پیدا تناؤ کا احساس بخوبی ہو جاتا ہے۔ دو دن پہلے پولس کے ذریعہ کی گئی پٹائی کے سبب اب تک اسے درد کی دوائیں لینی پڑ رہی ہیں۔ امت کا کہنا ہے کہ ’’میں بس اپنی ڈیوٹی کر رہا تھا۔ مال گاڑی کے تین ڈبے پٹری سے اتر گئے تھے تبھی وہاں جی آر پی کے ایس او راکیش کمار آ گئے اور انھوں نے میرے ہاتھ میں تیزی سے ہاتھ مارا جس سے میرا فون دور جا گرا۔ میں نے کہا یہ آپ نے کیوں کیا! تو انھوں نے مجھے گالی دینی شروع کر دی اور ان کے ساتھ والے پولس اہلکار مجھے پیٹنے لگے۔ وہ میرے ذریعہ ایک مہینہ پہلے غیر قانونی وینڈروں کے خلاف چلائی گئی خبر سے ناراض تھے۔ مجھے لات گھونسوں سے بری طرح پیٹا گیا اور اس کے بعد تھانہ میں لا کر بند کر دیا۔ تھانہ میں لانے سے پہلے انھوں نے ایک بار پھر میری پٹائی کی اور میرا سر اپنے پیروں میں دبا کر لگاتار کمر پر کہنی ماری۔ بعد میں ایس او نے میرے منھ میں پیشاب کر دیا۔ اس کے بعد مجھے تھانہ لے جا کر ایک بار پھر پیٹا گیا۔‘‘

امت گزشتہ چار مہینے سے صحافت کر رہے ہیں۔ ساتھی صحافیوں کی مانیں تو وہ جنونی ہیں اور رِسک اٹھاتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد صحافیوں میں بہت غصہ ہے۔ وہ جمعرات کو دھرنے پر بیٹھ گئے تھے اور اب امت کی پٹائی کرنے والے پولس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ حالانکہ امت کو اب بھی سکون نہیں ملا ہے۔ وہ بھاگ دوڑ میں پوری طاقت جھونک رہے ہیں۔ امت کہتے ہیں ’’بدن میں کافی درد ہے، دوائی کھا رہا ہوں مگر اندر کی آگ ختم نہیں ہو رہی ہے۔ جی آر پی پولس صبح چار بجے مجھے اسپتال لے کر آئی۔ پوری رات مجھے تھانہ میں رکھا اور مجھ پر ریلوے لائن کے پاس گھومنے پر مقدمہ درج بھی کر دیا۔ جب تک میرے ساتھ ناانصافی کرنے والے سبھی پولس اہلکار جیل نہیں چلے جاتے، اس وقت تک میں خاموش نہیں بیٹھوں گا۔‘‘


شاملی مغربی اتر پردیش کا وہ ضلع ہے جو ہمیشہ سرخیوں میں رہتا ہے۔ پہلے یہ مظفر نگر کا حصہ تھا۔ یہاں دبنگ ذات کے لوگوں کی بالادستی ہے۔ اکثر یہاں صحافیوں کے ساتھ مار پیٹ کے معاملے سامنے آتے رہتے ہیں۔ کئی اخباروں کے دفتر پر بھی یہاں حملے ہو چکے ہیں۔

بدھ کو شاملی میں ہوئی امت کی پٹائی کے بعد اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی حکومت کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ پریس کی آزادی کو لے کر بھی سوال لگاتار اٹھ رہے ہیں۔ پہلے ہی کچھ صحافیوں کی گرفتاری سے صحافی طبقہ ناراض ہے۔ اب امت کی پٹائی نے معاملے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ امت شرما کی تحریر پر ایس او راکیش کمار، سپاہی سنجے کمار، رنکو اور سنیل کے خلاف رپورٹ درج کی گئی ہے۔


معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پریس کاؤنسل آف انڈیا کی پانچ رکنی ٹیم ہفتہ کو متاثرہ صحافی کی تکلیف سننے پہنچی اور پورے واقعہ کی تفصیلی جانکاری حاصل کی۔

شاملی میں صحافیوں پر حملے کا یہ تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے دو بڑے اخبارات کے دفتروں پر بھی حملہ ہو چکا ہے۔ مقامی صحافیوں کا الزام ہے کہ وہ دونوں حملے بھی پولس کی شہ پر کیے گئے تھے۔


ایڈووکیٹ پرتاپ راٹھوڑ کے مطابق گزشتہ کچھ وقت سے پولس کے رویہ میں تبدیلی آئی ہے۔ کئی صحافیوں کے خلاف مقدمے درج ہوئے ہیں۔ امت کی پٹائی صرف اسے بے عزت کرنے کے لیے نہیں کی گئی بلکہ سبھی صحافیوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے کی گئی ہے۔

ایک صحافی کی ایسی پٹائی کے بعد پورا صحافی طبقہ متحد ہو گیا ہے۔ پہلے انتظامیہ ملزمین کے خلاف مقدمہ درج نہیں کر رہی تھی، لیکن بعد میں صحافیوں کے اتحاد کو دیکھ کر اسے بیک فٹ پر جانا پڑا اور مقدمہ کی کارروائی آگے بڑھانی پڑی۔


مظفر نگر کے ’پترکار مہا سبھا‘ کے صدر مشرف صدیقی نے بتایا کہ ’’پولس چاہتی ہے کہ صحافی صرف ان کے انکاؤنٹر کی تعریف کریں اور انھیں بڑھا چڑھا کر مسیحا ثابت کریں۔ جو ان سے سوال پوچھتا ہے وہ ان کی آنکھ میں چبھ رہا ہے۔ امت کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ صحافیوں کے تئیں پولس کا رویہ اچھا نہیں ہے۔ صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمے لکھے جانے کی بھی شکایتیں ملی ہیں۔ شاملی کے واقعہ نے اب یہ طے کر دیا ہے کہ اپنے وجود کے لیے اب ہم لڑیں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Jun 2019, 4:10 PM