امریکہ پہنچتے ہی پوتن پر خوب برسے زیلینسکی، ٹرمپ کے ساتھ میٹنگ میں سخت رویہ اختیار کرنے کا اندیشہ
ولودمیر زیلنسکی نے اپنے بیان میں کہا کہ جنگ کی شروعات روس کے ولادمیر پوتن نے کی تھی، اس لیے جنگ اب اسے ہی روکنا ہے۔

وہائٹ ہاؤس میں ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ میٹنگ کے لیے امریکہ پہنچے یوکرینی صدر ولودمیر زیلینسکی نے اس میٹنگ سے قبل ہی اپنا سخت رخ واضح کر دیا ہے۔ امریکی صدر کے ایک پوسٹ کے جواب میں زیلینسکی نے پوتن کو نشانہ بنایا شروع کر دیا ہے۔ زیلنسکی کا کہنا ہے کہ جنگ کی شروعات روس نے کی تھی، اور ختم بھی وہی کرے گا۔
دراصل ٹرمپ نے میٹنگ سے قبل کہا تھا کہ ’جنگ اب ختم ہوگا یا نہیں، یہ زیلینسکی کو طے کرنا ہے‘۔ جنگ بندی پر بات کرنے کے لیے 18 اگست کو یوروپ کے سبھی سرکردہ لیڈران امریکہ کے وہائٹ ہاؤس میں جمع ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ ان لیڈران کے ساتھ براہ راست بات چیت کریں گے۔ لیکن اس میٹنگ سے قبل ہی زیلینسکی نے روس اور پوتن کے خلاف اپنے بیان سے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی نرمی اختیار نہیں کرنے والے۔
زیلینسکی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جنگ کی شروعات روس کے ولادمیر پوتن نے کی تھی، اس لیے جنگ اب اسے ہی روکنا ہے۔ یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ پوتن نے جنگ روکنے کے لیے 4 بڑی شرائط رکھی ہیں۔ ان شرائط میں یوکرین کے ڈونباس پر نیا دعویٰ بھی شامل ہے۔ پوتن کے مطابق وہ پہلے ڈونباس پر قبضہ کریں گے۔ اس کے بدلے جیپیراجیا کے کچھ حصے یوکرین کو واپس کر دے گا۔ حالانکہ زیلینسکی نے زمین کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دینے کی بات کہی ہے۔
زیلینسکی کا کہنا ہے کہ روس ڈونباس پر قبضہ کر کے آنے والے وقت میں یوکرین پر پھر حملہ کر دے گا۔ ایسی حالت میں یوکرین کہیں کا نہیں رہے گا۔ یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ پوتن نے کریمیا پر بین الاقوامی منظوری دلانے کا مطالبہ بھی امریکہ سے کیا ہے۔
اس درمیان زیلینسکی کے ساتھ اپنی میٹنگ سے قبل ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ‘ پر پوسٹ کر زیلینسکی کے سامنے کچھ شرطیں رکھی ہیں۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یوکرین اب یہ بھول جائے کہ وہ کبھی ناٹو کا رکن بن پائے گا۔ اس کے علاوہ اسے کریمیا کی خواہش بھی چھوڑنی ہوگی۔ ٹرمپ کے مطابق ان دونوں شرطوں کو اگر زیلینسکی مانتے ہیں تو جنگ ختم کی جا سکتی ہے۔
پوتن کی شرائط پر بات کرنے کے لیے امریکی صدر ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس میں جہاں یوکرینی صدر کو مدعو کیا ہے، وہیں یوروپی یونین کی صدر، ناٹو چیف، فرانسیسی صدر، جرمنی کے چانسلر، اٹلی اور برطانیہ کے وزیر اعظم کو بھی اس میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ وہ اس ایشو کو سلجھا کر 22 اگست کو ماسکو میں سہ فریقی میٹنگ کریں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔