’تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے‘، روسی حکمت عملی ساز دمتری ترینن کا دعویٰ

دمتری ترینن کا کہنا ہے کہ تیسری عالمی جنگ خاموشی کے ساتھ شروع ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق یہ جنگ بندوقوں اور ٹینکوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں سائبر حملے، معاشی پابندی جیسے کئی زاویے شامل ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>جنگ کے بعد کا منظر / اے آئی</p></div>

جنگ کے بعد کا منظر / اے آئی

user

قومی آواز بیورو

روس سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر حکمت عملی ساز اور جیو-پالیٹیکل ایکسپرٹ دمتری ترینن نے دعویٰ کیا ہے کہ خاموشی کے ساتھ تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ انھوں نے اپنے اس دعویٰ کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنگ بندوقوں اور ٹینکوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں سائبر حملے، معاشی پابندیاں، ڈیجیٹل نگرانی اور نظریاتی پولرائزیشن جیسے کئی زاویے شامل ہیں۔

دمتری ترینن نے دنیا کے کئی ممالک میں ہو رہی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ (تیسری عالمی) جنگ الگ الگ بر اعظموں میں، الگ الگ شکلوں میں لڑی جا رہی ہے۔ کئی تہذیبوں کے درمیان تصادم جیسا ماحول بن گیا ہے۔ مغربی اتحاد ایک طرف ہے اور روس-چین-ایران جیسی یوریشین طاقتیں دوسری طرف۔ اب غور کرنے والی بات یہ ہے کہ آخر یہ جنگ نظر کیسی آتی ہے؟ اس میں کون کون شامل ہیں؟ اور اس کے محاذ کہاں کہاں ہیں؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ عالمی سطح پر جنگ سے متاثر ممالک کون کون ہیں۔


مشرقی یورپ: عالمی جنگ کا مرکز یوکرین

اس مبینہ تیسری عالمی جنگ کا سب سے بڑا محاذ مشرقی یورپ ہے، جہاں روس اور یوکرین کے درمیان گزشتہ 3 سالوں سے زوردار جنگ جاری ہے۔ یوکرین کو امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور ناٹو کے دیگر ممالک سے لگاتار اسلحے، ٹریننگ اور مالی امداد مل رہی ہیں۔ حالانکہ یہ جنگ زمین پر روایتی اسلحوں سے لڑی جا رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سائبر حملے، اطلاعاتی جنگ، سیٹلائٹ جاسوسی اور ڈیجیٹل نگرانی جیسے جدید محاذ بھی کھل چکے ہیں۔ یہ جنگ اب محض 2 ممالک کے درمیان نہیں رہی، بلکہ عالمی قوتوں کے آمنے سامنے کی جنگ بن چکی ہے۔

مشرق وسطیٰ: غزہ اور ایران-اسرائیل تصادم

مشرق وسطیٰ اس جنگ کا دوسرا سب سے فعال محاذ بن چکا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ جاری ہے، اس میں اب ایران اور حزب اللہ جیسی علاقائی طاقتیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔ امریکہ کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے، جبکہ ایران کو روس اور چین کی بلاواسطہ حمایت مل رہی ہے۔ یہاں جنگ کی فطرت روایتی کی جگہ ’اسیمٹرک وارفیئر‘ والی ہے، جہاں ڈرون حملے، پراکسی جنگجو، سائبر حملے اور محدود ایئر اسٹرائیک اہم حکمت عملیاں بن چکی ہیں۔


تائیوان اور ایشیا-پیسفک

چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے سبب ایشیا-پیسفک علاقہ تیسرے محاذ کی شکل میں ابھر رہا ہے۔ تائیوان کو چین اپنا حصہ مانتا ہے اور لگاتار فوجی دباؤ بڑھا رہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ تائیوان کو اسلحوں اور تکنیکی مدد سے حمایت دے رہا ہے۔ فی الحال یہ جنگ ’سرد جنگ‘ جیسی ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ تائیوان ’آبنائے‘ (تنگ آبی راستہ جو 2 آبی ذخائر کو ملتا ہے اور 2 زمینی حصوں کو الگ کرتا ہے) یا جنوبی چینی سمندر میں کوئی بھی اکساؤ اس علاقہ کو سیدھے فوجی تصادم کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

دنیا 2 گروپوں میں منقسم ہو چکی ہے

روسی ماہر ترینن کے مطابق یہ جنگ اب صرف علاقائی یا محدود نہیں رہا بلکہ پوری دنیا 2 واضح گروپوں میں تقسیم ہوتی جا رہی ہے۔ پہلا گروپ مغربی اتحاد کا ہے، جس میں امریکہ، ناٹو ممالک، جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا جیسے ممالک شامل ہیں۔ دوسرے گروپ میں یوریشین طاقتیں ہیں، مثلاً روس، چین، ایران، شمالی کوریا اور کچھ سطح پر برکس کے ممالک، جو یا تو کھلی حمایت دے رہے ہیں یا سفارتی طور سے توازن بنا رہے ہیں۔


تیسری عالمی جنگ کیسی نظر آتی ہے؟

دمتری ترینن کے مطابق اس تیسری جنگ میں اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے بے اثر ثابت ہو رہے ہیں اور ایک نیا عالمی نظام ابھر رہا ہے۔ یہ جنگ طویل مدت تک چلنے والی ہے، اور غالباً اس کے آخر میں ایک نیا طاقتور توازن قائم ہوگا۔ ترینن نے یہ بھی متنبہ کیا ہے کہ اگر تائیوان، ایران یا بالٹک ممالک میں کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے تو یہ جنگ جوہری بحران کی طرف بھی جا سکتی ہے۔ روس اور امریکہ جیسی جوہری طاقتوں کے درمیان برسرعام جوہری اسلحوں کی دھمکی اس بات کا اشارہ ہے کہ دنیا بے حد نازک دور میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ جنگ ہے بھی، اور نہیں بھی۔ اس کے نتائج اتنے ہی خطرناک ہو سکتے ہیں جتنے 1914 یا 1939 کی عالمی جنگ میں ہوئے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔