کیا گر جائے گی نیتن یاہو کی حکومت؟ وزراء نے استعفے کی دھمکی دی، اسرائیلی سیاست میں ہلچل

اسرائیل میں یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے بعد سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ وزراء نے فلاڈیلفی کاریڈور سے دستبرداری کی صورت میں استعفیٰ دینے کی دھمکی دی، جس سے حکومت کے گرنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے

<div class="paragraphs"><p>اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو (فائل)</p></div>

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو (فائل)

user

قومی آواز بیورو

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے نے سیاسی منظر نامے میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس معاہدے کے تحت آئندہ 6 ہفتوں میں حماس 33 یرغمالیوں کو رہا کرے گا، جبکہ اسرائیل سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔ معاہدہ دو مراحل پر مشتمل ہوگا، پہلے مرحلے میں خواتین اور بچوں کی رہائی جبکہ دوسرے مرحلے میں مرد فوجیوں کی رہائی شامل ہوگی۔

وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو کی حکومت کو اس معاہدے پر داخلی دباؤ کا سامنا ہے۔ ان کی کابینہ کے وزیر امیچائی چکلی نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل فلاڈیلفی کاریڈور سے دستبردار ہوتا ہے تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔ یہ کاریڈور غزہ اور مصر کے درمیان ایک تنگ راہداری ہے، جو اس وقت مذاکرات میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

دوسری جانب مذہبی صیہونی پارٹی کے سربراہ بیزلیل سموٹریچ نے بھی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دی ہے، جس سے نیتن یاہو کی قیادت میں قائم حکومتی اتحاد کمزور ہو سکتا ہے۔ اس ممکنہ سیاسی عدم استحکام سے معاہدے کے نفاذ پر اثر پڑ سکتا ہے۔


قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے بھی اعلان کیا کہ اگر کابینہ غزہ میں حماس کے ساتھ معاہدے کو منظور کرتی ہے تو ان کی پارٹی اوتزمان یہودیت اتحادی حکومت چھوڑ دے گی۔ اس بیان نے نیتن یاہو حکومت کو مزید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔ لِکود پارٹی نے بن گویر کی دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی دائیں بازو کی حکومت کو گرا دے گا، وہ بدنامی کا شکار ہوگا۔

غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 46000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے 17000 سے زائد جنگجو مارے ہیں، مگر اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ انسانی بحران نے صورتحال کو مزید سنگین کر دیا ہے اور غزہ کے شہریوں کے لیے امداد کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔


معاہدے کے مطابق، روزانہ سینکڑوں امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ تاہم، رفح سرحدی گزرگاہ مئی سے بند ہے اور اسے دوبارہ کھولنے کی شرائط پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ اگرچہ جنگ بندی پر معاہدہ ایک اہم پیش رفت ہے، مگر اس پر عمل درآمد میں کئی رکاوٹیں موجود ہیں۔ سیاسی اور انسانی پہلوؤں پر توجہ دیے بغیر اس معاہدے کی کامیابی ممکن نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔