کیا ’کاش‘ پٹیل مودی کے مشکل کشاں بنیں گے؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کے طور پر کاش پٹیل کی تقرری کے امکانات پر بحث جاری ہے۔ یہ فیصلہ ہندوستان کے لیے کیا معنی رکھ سکتا ہے، یہ ایک اہم سوال ہے

<div class="paragraphs"><p>کاش پٹیل / Getty Images</p></div>

کاش پٹیل / Getty Images

user

آشیش رے

مشرقی افریقی گجراتی نژاد 44 سالہ کشیپ 'کاش' پٹیل ان ہائی پروفائل لوگوں میں شامل ہیں، جن کی حال ہی میں ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کی مستقبل کی انتظامیہ کے لیے تقرری کی گئی ہے۔ رئیل اسٹیٹ کاروباری اور گولف کے شوقین ٹرمپ نے پچھلے مہینے موجودہ نائب صدر کملا ہیرس کو شکست دے کر امریکہ کے صدر کے طور پر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

پیشہ ور وکیل پٹیل، ٹرمپ کے پہلے دور حکومت (2016-2020) کے دوران ان کی وزارت دفاع کے چیف آف اسٹاف تھے اور اب وہ اس وفاقی تحقیقاتی بیورو (ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر جیسے حساس عہدے کے لیے ان کی پہلی پسند ہیں، جن کی تفتیشی طاقتیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

ٹرمپ کے پہلے دور میں قومی سلامتی کے مشیر رہے جان بولٹن کا کہنا ہے، ’’سینیٹ کو یہ تقرری 100-0 کے فرق سے مسترد کر دینی چاہیے۔" جس پر نومنتخب نائب صدر جے ڈی وینس نے سوشل میڈیا پر جواب دیا، ’’جان بولٹن کسی بھی مسئلے پر غلط ثابت ہوئے ہیں، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ کشیپ کا انتخاب بہت شاندار ثابت ہوگا۔‘‘

امریکی نظام کے مطابق سینیٹ جس کے پاس حالیہ انتخابات کے نتیجے میں جنوری میں 53-47 ریپبلکن اکثریت ہوگی، سے کام کا آغاز کرنے سے پہلے پٹیل کی تقرری کی توثیق حاصل کرنا ضروری ہے۔

پٹیل ایک 'ڈیپ اسٹیٹ' سازشی تھیوری دان کے طور پر 'مشہور' رہے ہیں۔ انہوں نے ایف بی آئی کے اعلیٰ افسران کو برطرف کرنے اور اس کا واشنگٹن ہیڈکوارٹر بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ٹرمپ کے انتہائی وفادار پٹیل نے 'کنگ ڈونلڈ' کو ایک کردار کے طور پر پیش کر کے بچوں کے لیے کتابیں بھی شائع کی ہیں۔


نیویارک میں پیدا ہونے والے پٹیل نے کہا جاتا ہے کہ وہ قدامت پسند ہندو ماحول میں پلے بڑھے اور یہ بات مشرقی افریقی گجراتی خاندانوں کے لیے نئی نہیں تھی۔ 1925 میں اپنے قیام کے بعد ہندوستان میں اثر و رسوخ قائم کرنے میں ناکام رہنے کے بعد آر ایس ایس نے 1940 کی دہائی میں مشرقی افریقہ میں اپنا پھیلاؤ کیا اور وہاں کے ہندوؤں کے ساتھ جلد ہی زیادہ کامیاب ہو گئی۔

ایک معاون - ہندو سوم سیوک سنگھ (ایچ ایس ایس) کی آڑ میں کام کرتے ہوئے، اس نے ان ہندوؤں پر اپنی گرفت برقرار رکھی جو 1970 کی دہائی کے آغاز میں ان نیو کالونائزڈ ممالک کے نئے حکام کے ظلم یا ایسے کسی امکان کے بعد یوگنڈا، کینیا اور تنزانیہ سے فرار ہو گئے تھے۔ امریکہ بھی ان ممالک میں شامل تھا جہاں وہ بسنا چاہتے تھے اور جہاں آج تقریباً 220 ایچ ایس ایس شاخیں موجود ہیں۔

امریکہ میں نریندر مودی کے لیے ڈھول تاشے بجانے والے ایچ ایس ایس کے ارکان اور پیروکار ٹرمپ کے بھی پکے حامی ہیں۔ اپنی چاہت کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ ہندوستان دوست اور مسلم مخالف ہیں۔ پٹیل کی پرورش بھی یہی بتاتی ہے کہ وہ بھی اسی طرح کے ہو سکتے ہیں۔

ہندوستان اور ہندوستانیوں کے لیے اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ اگر وہ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہو گئے تو پٹیل ہر اس جگہ پر خاصے اثر و رسوخ والے ہوں گے جہاں ایجنسی کی مداخلت ہوگی۔

جب 20 نومبر کو نیو یارک میں رشوت ستانی کے الزامات میں مودی کے قریبی دوست اور ہندوستانی صنعت کار گوتم اڈانی اور دیگر افراد کے مقدمات کی تصدیق کی گئی، تو 3 افسران کی طرف سے ایک ہی پریس بیان جاری کیا گیا۔ ان میں سے ایک ایف بی آئی کے نیو یارک فیلڈ دفتر کے انچارج معاون ڈائریکٹر جیمز ای ڈیانہی تھے۔ انہوں نے کہا، ’’ایف بی آئی تمام بدعنوان معاہدوں کو بے نقاب کرنے، خاص طور پر بین الاقوامی حکومتوں کے ساتھ اور سرمایہ کاروں کو متعلقہ نقصانات سے بچانے کے لیے اپنی پختہ مشن کو جاری رکھنے کے لیے عہد بستہ ہے۔‘‘

یعنی، ایف بی آئی اس مقدمے میں مکمل طور پر فریق ہے۔ ایسی صورت میں، اگر پٹیل کے نام پر اتفاق ہو جاتا ہے، تو ڈیانہی کو مجموعی طور پر ان کے تحت کام کرنا ہوگا۔ ایسی صورتحال میں، کسی مقدمے کو ختم کرنا اور دفاع کرنا اس وقت تک مشکل ہے، جب تک کہ ثبوتوں کے سطح پر کچھ خامیاں نہ مل جائیں۔


اصولوں کے مطابق امریکی ریاست اپنے مجرمانہ انصاف کے نظام کے ساتھ آئینی طور پر اپنے ہندوستانی ہم منصبوں کے مقابلے میں زیادہ خودمختار ہے۔ اس صورت میں، خالصتانی انتہاپسند گروپ گرپتونت سنگھ پنوں کی قتل کی کوشش میں حکومت ہند کے خلاف نیو یارک کی عدالت میں دائر الزامات ہندوستانی نقطہ نظر سے تکنیکی طور پر زیادہ پیچیدگی پیدا کرنے والا ہے۔ اسی مقدمے میں عدالت نے ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال کو پیش ہونے کے لیے سمن بھیجا ہے۔ یہ ڈووال کی غیر ملکی سرگرمیوں، ان کی آمد و رفت پر پابندی لگانے کے علاوہ، مودی کے لیے بھی خاصا عجیب اور شرمناک ہے۔

یہ الزام کہ ہندوستانی وزیر داخلہ اور نریندر مودی کے قریبی ساتھی امت شاہ کینیڈا کی سرزمین پر خالصتان حامی سکھوں کے قتل اور انہیں خوفزدہ کرنے کی سازشوں میں ملوث تھے، مودی کے لیے اور بھی سنگین ہے۔ ان میں واضح طور پر وینکوور میں ہر دیپ سنگھ نِجر کے قتل کا معاملہ شامل ہے۔

شمالی امریکہ کی میڈیا رپورٹوں کے مطابق، ایف بی آئی نے کینیڈا کے تفتیش کاروں کو ثبوت تلاش کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس میں ہندوستانی حکام کے درمیان فون کالز اور پیغامات سمیت دیگر مواصلات شامل تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کے طور پر پٹیل کی تقرری کے بعد کینیڈا کے حکام کے ساتھ ایف بی آئی کا تعاون اسی طرح جاری رہے گا؟ خاص طور پر جب کینیڈا نے ستمبر 2023 میں کینیڈا کی پارلیمنٹ میں وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے بیان کے ساتھ دھماکہ خیز دعوے کیے تھے، اگرچہ عدالت میں ان پر باقاعدہ الزامات عائد کیے جانے ہیں۔

ایسے غیر یقینی حالات میں ایف بی آئی کے مسلسل تعاون کی بات اہم ہو سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پٹیل کی قیادت میں یہ تعاون آگے بڑھے گا؟ یا دوسرے الفاظ میں، کیا کینیڈا پٹیل کی قیادت والی ایف بی آئی پر بھروسہ کرے گا؟

معاملات ہمیشہ چلتے رہتے ہیں اور نئی دہلی کو امید ہوگی کہ امریکہ میں وفاقی اور ریاستی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان باہمی سمجھوتے سے دباؤ کم ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ پٹیل کے اختیار سے بالا معاملہ ہوگا اور اس کے لیے ٹرمپ کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔ چونکہ وہ خود کو سودے کا منتظم سمجھتے ہیں، اس لیے وہ بدلے میں مودی سے کچھ خاص توقعات رکھ سکتے ہیں۔


دوسری جنگ عظیم کے بعد سے برطانیہ امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی رہا ہے۔ لندن میں دفاعی حکام کے حوالے سے برطانوی اخبار ’ڈیلی ٹیلی گراف‘ نے رپورٹ کی تھی کہ وہ ٹرمپ کی جانب سے قومی انٹیلی جنس ڈائریکٹر کے طور پر تلسی گبارڈ کی تقرری سے 'فکرمند' تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسکون کی پیروکار ہیں اور وائٹ ہال میں انہیں 'ماسکو حامی' سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ عہدہ ہے جس میں آٹھ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی شامل ہے۔

ایک مغربی انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے 'پولیٹیکو' کا کہنا تھا کہ گبارڈ کی تقرری سے انٹیلی جنس معلومات کے اشتراک پر اثر پڑ سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، گبارڈ کی نظر میں آنے کے خوف سے امریکہ کے اتحادی حساس معلومات دینے سے محتاط ہو سکتے ہیں، جو کہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے 'فائیو آئیز' گروپ میں معمول کی بات رہی ہے۔

اصل میں 'فائیو آئیز' گروپ میں پٹیل کے حوالے سے زیادہ پریشانی ہے۔ اس کی گہری تشویش کے پیش نظر راز کی باتوں کا ان کے ہاتھوں میں آنا خطرناک ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔