روسی سائبر حملوں میں اچانک اضافہ کیوں؟ تبصرہ

نیٹو ممالک کے وزرائے دفاع نے یہ تسلیم کیا ہے کہ روسی حملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ حملے ٹینکوں یا پھر راکٹوں سے نہیں بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے کیے جا رہے ہیں اور یہ حملے بلا مقصد نہیں ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

پیش کیے گئے شواہد انتہائی مستند معلوم ہوتے ہیں۔ ہالینڈ، سوئزرلینڈ اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں نے روس کے ان ایجنٹوں کے نام اور عہدے بھی بتائے ہیں، جن کا حالیہ سائبر حملوں کے پیچھے ہاتھ ہے۔ اسی طرح امریکا، کینیڈا، ڈنمارک اور آسٹریلیا نے بھی روسی ہیکرز کے حملوں کی شکایت کی ہے۔ اس کے باوجود کہ پہلی نظر میں ان ممالک کے یہ الزامات منصوبہ بندی کا حصہ لگتے ہیں لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ روسی سائبر ایجنٹ مغربی اداروں، پارٹیوں، کمپنیوں اور سپورٹس ایسوسی ایشنز کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔

ماسکو حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے لیکن یہ مشینی اور تنگ کر دینے والے جارحانہ حملے انتہائی خاموشی سے کیے جاتے ہیں۔ مغرب روس کے خلاف پابندیاں عائد کرتا ہے تو اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا۔ ان پابندیوں کا جہاں روس کو نقصان ہوتا ہے، وہاں مغرب کو بھی ہو رہا ہے۔

کیا یہ حملے فوجی بجٹ میں اضافے کے لیے ہیں؟

کیا یہ کھیل فوجی بجٹ میں اضافے کے لیے کھیلا جا رہا ہے؟ روسی سائبر حملوں کے تناظر میں نیٹو ممالک نے بھی اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کر دیا ہے۔ صدر پوتن نے اصل میں اعلان کیا تھا کہ وہ سن 2019 میں فوجی بجٹ میں کمی کا اعلان کریں گے۔ روسی صدر کو کمزور ہوتی معیشت کے لیے زیادہ پیسے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کے جرنیلوں کو کبھی بھی یہ بات پسند نہیں آئے گی۔ ابھی سے یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ اسی وجہ سے روسی فوجی خفیہ ایجنسی جی آر یو نے حالیہ سائبر حملوں میں اضافہ کیا ہے۔

مخالفین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی ہمیشہ فوجی اور دفاعی بجٹ کے لیے بہتر ثابت ہوتی ہے۔ دوسری جانب یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ نومبر کے اواخر میں واشنگٹن حکومت روس مخالف پابندیوں میں زبردست اضافہ کرے گی اور ماسکو کے پاس مثالی رویہ اپنانے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔

ماسکو کی حالیہ جارحیت کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہو، کبھی نہ کبھی کریملن کو واپس اپنی جگہ آنا ہی پڑے گا۔ اچھے تعلقات نہ صرف روس بلکہ مغرب کے بھی مفاد میں ہیں۔ مغرب کا چین کے ساتھ اتحاد بھی شراکت داری کے حوالے سے کوئی متبادل نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Oct 2018, 5:31 AM