60 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جان لینے کے بعد بھی اسرائیل اپنے تمام یرغمالیوں کو کیوں نہیں آزاد کرا پایا؟
حماس کے جنگجو گوریلا انداز میں جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس نے جنگ کے درمیان ہی کئی نئے جنگجوؤں کی بھرتی کی ہے، جن کا اسرائیل کے پاس کوئی ریکارڈ بھی نہیں ہے۔
فائل تصویر آئی اے این ایس
تقریباً 2 سال سے جاری جنگ میں اسرائیل کی شدید بمباری نے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ 60 ہزار سے زائد لوگوں کی جان لینے کے بعد بھی اسرائیل اپنے تمام یرغمالیوں کو آزاد نہیں کرا پایا ہے اور نہ ہی حماس کو مکمل طور سے ختم کرنے میں اسرائیلی فوج کامیاب ہو پائی ہے۔ اب جنگ اپنے آخری مرحلہ میں ہے، حماس ایک بار پھر امریکہ-اسرائیل پر حاوی ہوتا نظر آ رہا ہے۔
گزشتہ 2 ماہ میں حماس کے جنگجوؤں نے کئی حملے کیے ہیں، جن میں اسرائیل کے درجنوں فوجی مارے گئے۔ جنگ کی شروعات میں اسرائیل نے مغربی میڈیا کی مدد سے حماس کو ایک خونخوار دہشت گرد ثابت کرتے ہوئے اپنے حملوں کو درست قرار دیا تھا۔ لیکن اب غزہ میں دم توڑتے بچوں کی تصویریں، فاقہ کشی اور بنیادی سہولیات کی انتہائی کمی کو دیکھ کر پوری دنیا میں اسرائیل کی مذمت ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل بین الاقوامی سطح پر بیک فٹ پر آ چکا ہے۔ ایسے میں اسرائیل کی بین الاقوامی حمایت کم ہونے کا براہ راست فائدہ حماس کو مل رہا ہے۔ ایسی بہت ساری وجوہات ہیں جن کے سبب حماس آخری دور میں اسرائیل پر حاوی ہو رہا ہے۔
واضح ہو کہ حماس کے پاس ابھی بھی اسرائیل کے 20 شہری قید ہیں۔ امریکی نیوز ویب سائٹ ’ایکسیوس‘ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک سورے کا ویڈیو دکھایا گیا، جس میں 70 فیصد اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ہر حال میں یرغمالی واپس چاہیے۔ جبکہ حماس نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ بغیر جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کی واپسی کے یرغمالیوں کو آزاد نہیں کرے گا۔ ساتھ ہی گزشتہ 22 ماہ کی جنگ میں دنیا کو نظر آ گیا ہے کہ اسرائیل فوجی کارروائی سے نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعہ ہی یرغمالیوں کو آزاد کرا سکتا ہے۔
واضح ہو کہ حماس کے جنگجو گوریلا انداز میں جنگ لڑ رہے ہیں۔ حماس نے جنگ کے درمیان ہی کئی نئے جنگجوؤں کی بھرتی کی ہے اور ان کا اسرائیل کے پاس کوئی ریکارڈ بھی نہیں ہے۔ مارچ 2025 کے بعد اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کے بعد حماس نے 40 سے زائد اسرائیلی فوجیوں کو مارا، حالانکہ یہ اعداد و شمار غیر سرکاری ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کیے جا رہے انسانی نسل کشی کی تصویر سے بھی اسرائیل اور امریکہ بیک فٹ پر ہے۔ خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر (28 جولائی) کو قبول کیا ہے کہ غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے اس دعوے سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں کہ غزہ میں کوئی بھوک مری نہیں ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ نیتن یاہو کی بات سے متنفق ہیں تو ٹرمپ نے کہا کہ ’’ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناظر کی بنیاد پر میں کہوں گا کہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ بچے بہت بھوکے نظر آ رہے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’’غزہ میں حقیقی معنوں میں بھوک مری ہے، آپ اسے فرضی نہیں کہہ سکتے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔