ایران کے شہر ’بوشہر‘ پر حملہ کرنے سے امریکہ نے کیوں کیا پرہیز؟

اسرائیل کی جانب سے ایران کے بوشہر جوہری مقام پر حملہ کیا جاتا ہے تو اس سے خلیجی ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، عمان، قطر، عراق اور بحرین کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>ایران پر اسرائیل کا حملہ (فائل)۔ تصویر ’انسٹاگرام‘</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں امریکہ کی بھی انٹری ہو چکی ہے۔ 22 جون کو امریکہ نے ایران کے 3 جوہری مقامات فوردو، اصفہان اور نطنز پر حملہ کیا، لیکن بوشہر پر حملہ کرنے سے گریز کیا۔ حالانکہ اسرائیل جنگ کے پہلے ہی دن سے ایران کے مذکورہ چاروں جوہری مقامات کو نشانہ بنانے کی بات کہہ رہا ہے، لیکن اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) نے بوشہر جوہری پاور پلانٹ پر حملہ کے اعلان کو غلط بتایا ہے۔ فی الحال ان جوہری مقامات سے ریڈی ایشن پھیلنے کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) حالات پر قریب سے نظر رکھ رہی ہے۔

ایران اور اسرائیل جنگ کے درمیان روس نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ اگر ایران کے بوشہر جوہری پاور پلاںٹ پر حملہ ہوتا ہے تو اس سے ’چرنوبل‘ جیسی جوہری تباہی پیدا ہو سکتی ہے۔ واضح ہو کہ 1986 میں جب یوکرین سوویت یونین کے ماتحت تھا، تب وہاں ایک جوہری ری ایکٹر میں دھماکہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد یوکرین کا ایک بڑا علاقہ تباہ ہو گیا تھا اور کئی سالوں تک ریڈی ایشن پھیلا رہا۔


امریکہ کے ایران کے تینوں جوہری مقامات پر حملہ کے بعد پوری دنیا فکر مند ہو گئی ہے۔ ایسے میں سائنسدانوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اگر ایران کے بوشہر جوہری مقام پر حملہ ہوا تو بڑے پیمانے پر تباہی آ سکتی ہے۔ اس کی اصل وجہ ہے بوشہر کا ٹھکانہ، دراصل یہ ایران کا سب سے فعال جوہری ری ایکٹر ہے اور خلیج فارس کے بالکل متصل ہے۔ یونی ورسٹی آف مینچسٹر کے پروفیسر رچرڈ ویکفرڈ کے مطابق اگر جوہری پاور پلانٹس کافی بڑے ہوں اور ان جگہوں پر جوہری افزودگی کا کام ہوتا ہے تو یہ ایک بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ایسے ٹھکانوں پر حملہ سے ریڈیو ایکٹیو اشیاء کے ہوا اور پانی کے ذریعہ سمندر میں پھیلنے کا خطرہ ہے۔

اگر اسرائیل کی جانب سے ایران کے بوشہر جوہری مقام پر حملہ کیا جاتا ہے تو اس سے خلیجی ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، عمان، قطر، عراق اور بحرین کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ بوشہر خلیج فارس سے بالکل متصل ہے۔ بوشہر پر حملہ کی صورت میں ریڈیو ایکٹیو اور زہریلی اشیاء خلیج فارس کے پانی میں مل سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ ممالک متاثر ہو سکتے ہیں جو پانی کو پیوریفائی (صاف) کر استعمال کرنے پر منحصر ہیں۔


متحدہ عرب امارات میں پینے کے پانی کی کل فراہمی میں خلیج فارس کا پیوریفائی کیا ہوا پانی 80 فیصد ہے۔ دوسری جانب بحرین مکمل طور سے پیوریفائی کیے ہوئے پانی پر منحصر ہے، کیونکہ 2016 میں بحرین حکومت نے زیر زمین پانی کو ایمرجنسی کی صورت میں ہی استعمال کرنے کے لیے محفوظ کیا تھا۔ اسی طرح قطر بھی خیلج فارس سے پیوریفائی کیے ہوئے پانی پر منحصر ہے۔ سعودی عرب جہاں زیر زمین بھی پانی کی معقول موجودگی ہے، وہاں فی الحال پیوریفائی کیے ہوئے 50 فیصد پانی استعمال ہوتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔