امریکہ پر شٹ ڈاؤن کا خطرہ: ٹرمپ کو 60 ووٹ درکار، 55 ہی ملے، لاکھوں ملازمین پر لٹکی تلوار

امریکہ میں فنڈنگ بل ناکام ہونے سے شٹ ڈاؤن کا خطرہ بڑھ گیا۔ ٹرمپ کو 60 میں سے صرف 55 ووٹ ہی مل سکے۔ تعلیم سمیت کئی شعبے متاثر ہوں گے مگر ایف بی آئی، سی آئی اے اور ڈاک خدمات جاری رہیں گی

<div class="paragraphs"><p>امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ / Getty Images</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

واشنگٹن: امریکہ ایک بار پھر شٹ ڈاؤن کے دہانے پر کھڑا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں ریپبلکن پارٹی کو سینیٹ میں عارضی فنڈنگ بل پاس کرانے کے لیے کم از کم 60 ووٹ درکار تھے مگر انہیں صرف 55 ووٹ ہی حاصل ہو سکے۔ اس ناکامی کے بعد امریکی حکومت کے پاس ضروری اخراجات کے لیے کوئی نیا قانونی اختیار باقی نہیں رہا، جس کے نتیجے میں لاکھوں ملازمین اور درجنوں سرکاری محکمے متاثر ہو سکتے ہیں۔

امریکی قوانین کے مطابق جب تک بجٹ یا عارضی فنڈنگ بل منظور نہیں ہوتا، غیر ضروری تصور کیے جانے والے محکمے اور ادارے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اس عمل کو ہی ’شٹ ڈاؤن‘ کہا جاتا ہے۔ یہ گزشتہ دو دہائیوں میں پانچواں موقع ہے کہ امریکہ اس بحران کی زد میں آیا ہے۔

ریپبلکن پارٹی نے حکومت کو 21 نومبر تک کھلا رکھنے کے لیے ایک قلیل مدتی بل پیش کیا تھا لیکن ڈیموکریٹس نے اس پر اعتراض جتاتے ہوئے کہا کہ یہ ناکافی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ٹرمپ کے مجوزہ میگا بجٹ سے میڈیکیڈ میں کی جانے والی کٹوتی واپس لی جائے اور افورڈ ایبل کیئر ایکٹ کے اہم ٹیکس کریڈٹ کو بڑھایا جائے۔ دوسری جانب ریپبلکن پارٹی نے ان شرائط کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں جماعتوں کے درمیان شدید تعطل پیدا ہو گیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ بحران طویل ہوا تو اس کے اثرات نہ صرف ملازمین بلکہ امریکی معیشت پر بھی پڑیں گے۔ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں 2018 کے شٹ ڈاؤن نے 34 دنوں تک سرکاری کام کاج مفلوج کر دیا تھا اور لاکھوں افراد کو بغیر تنخواہ کے گھر بیٹھنا پڑا تھا۔ اس بار خدشہ ہے کہ حالات اور بھی سنگین ہوں گے، کیونکہ صدر ٹرمپ کئی محکموں کو مستقل طور پر بند کرنے اور ہزاروں ملازمین کو فارغ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔


اگر شٹ ڈاؤن نافذ ہو گیا تو ایف بی آئی، سی آئی اے، فضائی ٹریفک کنٹرول، فوجی خدمات، سوشل سکیورٹی چیک، میڈیکیئر کلیمز اور سابق فوجیوں کی صحت سے متعلق سہولتیں بدستور جاری رہیں گی۔ اسی طرح امریکی ڈاک کی ترسیل بھی متاثر نہیں ہوگی کیونکہ یہ اپنی آمدنی پر منحصر ہے۔ تاہم تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا، جہاں قریب 90 فیصد ملازمین کو فارغ کیے جانے کا امکان ہے۔ اس کے باوجود طلبہ کی مالی معاونت کسی حد تک برقرار رہے گی۔

اس کے علاوہ اسمتھ سونیئن میوزیم اور نیشنل زو اپنے دروازے بند کر دیں گے، جبکہ ایف ڈی اے نے ادویات اور طبی آلات کی منظوری میں تاخیر کی وارننگ دی ہے۔ نیشنل پارک سروس بھی محدود وسائل کے باعث کئی مقامات کو بند کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔

شٹ ڈاؤن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکی حکومت کو چلانے کے لیے بھاری بجٹ درکار ہوتا ہے، جو کانگریس کی منظوری کے بغیر خرچ نہیں کیا جا سکتا۔ ’اینٹی ڈیفیشینسی ایکٹ‘ کے تحت کوئی بھی ادارہ بغیر اجازت فنڈ استعمال نہیں کر سکتا، اس لیے جب بجٹ منظور نہ ہو تو حکومت کو اپنے زیادہ تر غیر ضروری شعبے بند کرنا پڑتے ہیں۔

اس وقت صدر ٹرمپ اور ڈیموکریٹس دونوں اپنے اپنے موقف پر اڑے ہوئے ہیں اور کسی مفاہمت کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ اگر آئندہ دنوں میں کوئی حل نہ نکلا تو یہ بحران امریکی تاریخ کا ایک اور طویل اور شدید شٹ ڈاؤن ثابت ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔