2 بڑی جنگوں کو روکنے کی بھرپور کوشش کر رہے امریکی صدر ٹرمپ، حماس اور روس کو دی ’آخری تنبیہ‘!

ٹرمپ نے کہا کہ ’’عرب و مسلم ممالک اور اسرائیل سبھی پیش کردہ امن معاہدہ کے لیے راضی ہیں، اب صرف حماس کی منظوری باقی ہے۔ اگر حماس نے ’ہاں‘ نہیں کہا، تو اس کا انجام بہت برا ہو سکتا ہے۔‘‘

ڈونالڈ ٹرمپ، تصویر یو این آئی
i
user

قومی آواز بیورو

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اِس وقت طویل مدت سے جاری 2 بڑی جنگوں کو روکنے کے لیے پوری طرح سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک طرف وہ حماس اور اسرائیل کے درمیان ’جنگ بندی‘ کے لیے 20 نکاتی فارمولہ لے کر سامنے آئے ہیں، دوسری طرف یوکرین اور روس کی جنگ جلد ختم نہ ہونے کے لیے انھوں نے ولادمیر پوتن کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ٹرمپ نے حماس اور روس کو ایک طرح سے ’آخری تنبیہ‘ بھی دے ڈالی ہے۔ دونوں کو ہی جنگ جلد ختم کرنے سے متعلق صحیح فیصلہ لینے کی ہدایت دی، ورنہ اس کا انجام بھگتنے کے لیے تیار رہنے کو کہا ہے۔

امریکی صدر نے آج اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حماس کو امن معاہدہ کا جواب دینے کے لیے 3 سے 4 دن کا وقت دیا جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی مطلع کیا کہ ’’عرب و مسلم ممالک اور اسرائیل سبھی پیش کردہ امن معاہدہ کے لیے راضی ہیں، اب صرف حماس کی منظوری باقی ہے۔ اگر حماس نے ’ہاں‘ نہیں کہا، تو اس کا انجام بہت برا ہو سکتا ہے۔‘‘ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ سبھی (اسرائیلی) یرغمالوں کی فوراً واپسی چاہتے ہیں اور حماس سے اچھا سلوک بھی چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ کام بہت خاص ہے، جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ صرف غزہ کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کا ہے۔ یہ بہت سیدھی اور صاف بات ہے۔‘‘


قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ نے غزہ جنگ ختم کرنے کے لیے 20 نکات پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا ہے۔ ٹرمپ کے منصوبہ پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اپنا اتفاق ظاہر کیا ہے۔ اب سبھی کی نگاہیں حماس پر مرکوز ہیں۔ مسلم ممالک کا رخ بھی بہت اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب، اردن، یو اے ای، قطر، انڈونیشیا، ترکیہ، پاکستان اور مصر کے لیڈران نے ٹرمپ کے منصوبہ کا استقبال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علاقائی امن کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہو سکتا ہے، بشرطیکہ کے سبھی شرطوں کی تکمیل ہو اور یرغمالوں کی بہ حفاظت رِہائی ممکن ہو۔

دوسری طرف امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن کے پاس کوانٹیکو ملٹری بیس پر فوج کے بڑے افسران کے ساتھ ایک اہم میٹنگ کی۔ اس میں سینکڑوں جنرل، ایڈمرل اور ان کے مشیر شامل ہوئے۔ یہ میٹنگ اچانک طلب کی گئی تھی۔ اس میٹنگ کے دوران اپنی تقریر میں ٹرمپ نے روس کو یوکرین سے جنگ ختم کرنے کی واضح تنبیہ بھی دے ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ ’’اگر ضرورت پڑی تو ہمارے پاس سب سے زیادہ اور سب سے اچھے جوہری اسلحے ہیں۔ لیکن ہم نہیں چاہتے کہ ہمیں کبھی انہیں استعمال کرنا پڑے۔‘‘


ٹرمپ نے کہا کہ جب روس نے جوہری اسلحوں کی بات کی، تو امریکہ نے جواب میں اپنی سب سے خطرناک جوہری آبدوز روس کے پاس بھیجی۔ یہ دنیا کا سب سے طاقتور اسلحہ ہے، جسے کوئی پکڑ نہیں سکتا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہمارے آبدوز روس اور چین سے 25 سال آگے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی ٹرمپ نے روسی صدر ولادمیر پوتن کو ’کاغذ کا شیر‘ بھی کہہ دیا۔ ٹرمپ کا یہ بیان روس کو براہ راست تنبیہ تصور کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے امریکہ کی طاقت اور تیاریوں کو دنیا کے سامنے رکھتے ہوئے روسی صدر پر اپنی ناراضگی کا بھی اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ پوتن سے الاسکا میں ہوئی ملاقات کے دوران کہا تھا کہ ’آپ ٹھیک نہیں نظر آ رہے۔ 4 سال سے ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہو جو ایک ہفتہ میں ختم ہو سکتی تھی۔ کیا آپ صرف کاغذ کے شیر ہو؟‘ ٹرمپ اپنے بیان میں کہتے ہیں کہ ’’میں پوتن سے بہت مایوس ہوں۔ میں نے سوچا تھا کہ یہ جنگ جلد ختم کر دیں گے۔ یہ جنگ ایک ہفتے میں ختم ہو جانی چاہیے تھی، لیکن اب 4 سال ہو گئے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔