امریکی پالیسیاں: افغان پائلٹس خوف میں مبتلا
امریکہ کی قیادت میں طالبان کے خلاف جنگ لڑنے والے افغان پائلٹس اب پاکستان میں پناہ گزین ہیں۔ امریکہ اور پاکستان کی سخت پالیسیاں ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہی ہیں

Getty Images
امریکہ کی قیادت میں طالبان کے خلاف بیس سالہ جنگ کے دوران افغان فضائیہ کے پائلٹس نے امریکی افواج کے ساتھ اہم کردار ادا کیا، جن میں سے کچھ نے طالبان پر بھاری جانی نقصان پہنچانے والے حملے کیے۔ یہ اتحاد اس وقت ختم ہو گیا، جب اگست 2021 میں غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل گئیں اور کابل طالبان کے قبضے میں آ گیا۔ توحید خان انہی پائلٹس میں سے ایک تھے۔ انہوں نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں سی این این کو بتایا کہ جب انہوں نے پہلی بار اپنے آبائی شہر کابل کے اوپر پرواز کی تو انہیں فخر محسوس ہوا تھا۔ لیکن طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہمسایہ ملک پاکستان آگئے، وہ خوفزدہ ہیں کہ اگر وہ افغانستان واپس جائیں گے تو ان کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ان کی حالت کو مزید بدتر کرتے ہوئے، امریکہ اور پاکستان کی پناہ گزین مخالف پالیسیوں کا مطلب ہے کہ 31 مارچ 2025 کی آخری تاریخ تک محفوظ پناہ گاہ تلاش کرنے کے لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔
11 ستمبر کے حملوں کے بعد 2001 میں امریکی حملہ افغانستان کی شہری آبادی کے لیے تباہی کا سبب بنا۔ امریکی قیادت میں اتحادی افواج نے طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا، افغانستان میں جمہوریت کی واپسی ہوئی اور خواتین کے لیے نئی راہیں ہموار ہوئیں ۔ لیکن جنگ اور عدم استحکام ملک بھر میں جاری رہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ جنگ میں دسیوں ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ 2021 کے پہلے چھ مہینوں میں شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔ تب امریکہ نے افغانستان سے انخلاء شروع کیا تھا اور اس کا افغان فوج پر انحصار بڑھ گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021 کے اس عرصے میں امریکی اور افغان فضائی حملوں میں 785 بچے ہلاک ہوئے۔ جیسے ہی امریکہ نے 20 سالہ جنگ کے بعد انخلاء کیا، افغان فوج اور حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور طالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے۔
اقوام متحدہ اور ہیومن رائٹس واچ نے ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، من مانی گرفتاریاں اور حراست، اور سیکورٹی فورسز میں افغانوں کے ساتھ تشدد اور دیگر ناروا سلوک کے دستاویز تیار کیے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق، وہ افغان جن کا سابقہ حکومت سے تعلق تھا، طالبان حکومت کی جانب سے خطرے محسوس کر رہے ہیں۔ بہت سے پائلٹس کو طالبان کے انتقامی حملوں کا خوف ستا رہا ہے۔ توحید خان نے بتایا کہ ان کے فضائیہ میں کام کرتے ہوئے 8 سے 10 ساتھی طالبان کے ہدف بنے اور ان کو قتل کر دیا گیا۔ افغان ایویک کے بانی اور باز آبادکاری اور سابق فوجیوں کے گروپوں کے امریکی اتحاد کے رہنما، شان وینڈائیور نے کہا، ’’ان پائلٹس نے امریکہ کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ اب ان کی زندگی ہمارے وعدوں کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے خطرے میں ہے۔‘‘
ایک تربیت یافتہ ایوی ایشن انجینئر، 37 سالہ خپل وکا بھی اتنے ہی خوفزدہ ہیں۔ وہ توحید خان کے دوست ہیں اور انٹیلی جنس، نگرانی اور جاسوسی پروگرام کا حصہ تھے۔ ان کا کام امریکی ڈرون حملوں سے نشانہ بننے سے پہلے سویلین علاقوں کو کلیئر کرنا تھا۔ وہ جلد ہی طالبان کا ہدف بن گئے اور طالبان کے قابض ہونے سے پہلے بھی انہیں ہر تین سے چار ماہ بعد گھر بدلنا پڑتا تھا ۔ توحید خان کی طرح، انہوں نے بھی ایک فرضی نام کے تحت بات کی اور انہیں فکر تھی کہ طالبان پاکستان میں بھی ان تک پہنچ سکتے ہیں۔
طالبان نے سابقہ افغان پائلٹس کے لیے کسی خطرے سے انکار کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا، "جو پائلٹس افغانستان واپس آنا چاہتے ہیں، وہ ضروری ہیں کیونکہ وہ ملک کے لیے قیمتی ہیں اور اہم فوجی اہلکار ہیں۔ ان کے کچھ ساتھی پہلے ہی کام پر ہیں، قوم کی خدمت کر رہے ہیں، اور ان کے ساتھ بھی عزت کے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔" دوسری جانب، اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے کوئی جواب نہیں دیا۔
توحید خان مارچ 2022 میں پاکستان پہنچے تھے۔ ایک امریکی تربیت دینے والے پائلٹ کی مشورے پر وہ قانونی طور پر اور پیدل پاکستان پہنچے، اپنے ۔ وہ امریکی پناہ گزین داخلہ پروگرام (یو ایس آر اے پی) کے تحت اور دو سال انتظار کے بعد بالاخر پچھلے سال اپریل میں امریکی سفارت خانے انٹرویو کے لیے پہنچے تاکہ امریکہ میں باز آبادکاری کی درخواست دے سکیں۔ لیکن اس کے بعد کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
گزشتہ دو مہینوں میں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تحت وائٹ ہاؤس کی پالیسی مزید غیر متوقع اور پناہ گزینوں کے مخالف ہو گئی ہے، جس سے توحید خان جیسے افغانوں کے لیے امکانات مشکوک ہو گئے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ایگزیکٹو آرڈرز کی وجہ سے ہزاروں افغان پہلے ہی بے یقینی کی حالت میں ہیں، جن میں امریکی پناہ گزین داخلہ پروگرام کو معطل کر دیا گیا ہے اور افغان خصوصی تارکین وطن ویزا (ایس آئی وی) کے حامل افراد کے لیے پروازوں کے لیے غیر ملکی امداد کی فنڈنگ کو معطل کیا گیا ہے۔ افغان ایویک کے مطابق، کم از کم دو ہزار افغان جنہیں امریکہ میں باز آبادکاری کے لیے منظور کیا گیا ہے، وہ اس وقت بے یقینی کی حالت میں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے لیے نسبتاً محفوظ دن کم ہیں کیونکہ حکومت اکتوبر 2023 سے افغان پناہ گزینوں پر کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔ پہلے پاکستان افغان پناہ گزینوں کے لیے نرمی دکھاتا تھا جو کہیں اور آبادکاری کے منتظر تھے، لیکن فروری میں اس اعلان کے بعد کہ پاکستان 31 مارچ تک کسی تیسرے ملک میں آبادکاری کے لیے روانہ ہونے والے افغانوں کو واپس بھیجے گا، صورتحال بدل گئی ہے۔
پاکستان کے چیف کمشنر برائے افغان پناہ گزین عباس خان کے مطابق، پاکستان کے پاس پناہ گزینوں کی منتقلی کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ افغان فضائیہ کے سابقہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹر پائلٹ جواد احمد خوفزدہ ہیں کہ ان کے خاندان کے ساتھ کچھ ہو سکتا ہے کیونکہ ماضی میں ان کا تعلق فوج سے رہا ہے۔ وہ قانونی طور پر پاکستان پہنچے تھے اور دو سال بے یقینی کی حالت میں رہے۔ امریکی امیگریشن افسران نے ان کا انٹرویو مئی 2024 میں لیا تھا اور 10 جنوری کو ان کا میڈیکل ٹیسٹ ہوا۔ اس کے بعد انہیں امریکی سفارت خانے سے کوئی اطلاع نہیں ملی۔
پاکستانی پولیس نے پچھلے دو مہینوں میں جواد احمد کے پڑوسیوں کو چھاپوں کے دوران حراست میں لیا۔ ان کے بچے خوف اور دہشت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لیکن افغانستان واپس جانا اس سے بھی زیادہ برا ہو سکتا ہے۔ جواد احمد کے مطابق، وہاں صرف موت، مشکلات اور ہولناکیاں ان کا انتظار کر رہی ہیں۔ افغانستان میں موجود ان کے خاندان نے اپنی حفاظت کے لیے نئے نام اور شناخت اپنا لیے ہیں اور نئے صوبے میں اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جواد احمد بار بار اپنی بات صدر ٹرمپ تک پہنچانے کی درخواست کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’آپ نے ہمیں تربیت دی، ہم آپ کے ساتھ مشکل وقت میں تھے، ہم نے آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کیا۔ ہمارے پاس پاکستان میں کوئی راستہ نہیں ہے، براہ کرم ہمیں یہاں سے نکال لیں۔ ‘‘ دوسری جانب امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے وہ پاکستان کے ساتھ افغان شہریوں کے امریکہ میں باز آبادکاری کی صورتحال پر قریبی رابطے میں ہے۔ لیکن فی الحال، توحید خان اور ان کے 27 افغان پائلٹس اور انجینئرز کا گروپ اپنے مستقبل سے لاعلم پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔