امریکی طلبہ ویزا پالیسی میں سختی: سوشل میڈیا کی جانچ، نئے انٹرویوز پر عارضی پابندی

امریکہ نے طلبہ، پیشہ ورانہ اور تبادلہ پروگرام کے ویزا انٹرویوز پر پابندی لگا دی ہے۔ سوشل میڈیا کی جانچ لازم ہوگی۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی فنڈنگ پر بھی نظرثانی ہو رہی ہے

ڈونالڈ ٹرمپ، تصویر یو این آئی
ڈونالڈ ٹرمپ، تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

امریکہ نے دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ طلبہ، پیشہ ورانہ اور تبادلہ پروگرام ویزا کے نئے انٹرویوز فی الحال نہ لیں۔ یہ فیصلہ ایک ایسی وسیع پالیسی کے تحت لیا گیا ہے جس میں تمام غیر ملکی طلبہ کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی جانچ لازمی قرار دی گئی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ جب تک نئی رہنمائی موصول نہ ہو، ویزا انٹرویوز کی نئی اپائنٹمنٹ شیڈول نہ کی جائے۔ یہ اقدام اس رجحان کا حصہ ہے جس کے تحت غیر ملکی طلبہ کی سکیورٹی اور پس منظر کی جانچ کو مزید سخت بنایا جا رہا ہے۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ اور امریکہ کی معروف جامعات، خاص طور پر ہارورڈ یونیورسٹی، کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے ہارورڈ کے ساتھ جاری حکومتی معاہدوں کا از سر نو جائزہ لینے کا عندیہ دیا ہے۔ ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق، ہارورڈ کو دیے گئے تقریباً 10 کروڑ ڈالر مالیت کے 30 سے زائد معاہدے منسوخ کیے جا سکتے ہیں یا کسی اور ادارے کو منتقل کیے جا سکتے ہیں۔


اس سے قبل، ٹرمپ حکومت نے ہارورڈ میں غیر ملکی طلبہ کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی، جسے یونیورسٹی نے عدالت میں چیلنج کر دیا تھا۔ عدالت نے اس فیصلے پر فوری طور پر روک لگا دی، مگر کشیدگی برقرار ہے۔ ٹرمپ نے بعد میں ہارورڈ سے غیر ملکی طلبہ کی مکمل فہرست طلب کی اور ان پر امریکہ کے تعلیمی نظام سے فائدہ اٹھانے کا الزام عائد کیا۔

پالیسی کے دفاع میں، امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹی می بروس نے کہا کہ یہ عمل متنازع نہیں بلکہ امریکہ کی سکیورٹی کے لیے ضروری ہے۔ ان کے مطابق، ہر داخل ہونے والے شخص کی سخت جانچ کی جائے گی تاکہ ملک میں صرف قانون پسند اور مثبت کردار ادا کرنے والے افراد ہی آئیں۔

ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ان پالیسیوں سے امریکی تعلیمی نظام اور معیشت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بین الاقوامی تعلیمی ادارے آئی آئی ای کے مطابق، 2023-24 میں امریکہ میں 11 لاکھ سے زائد غیر ملکی طلبہ زیرِ تعلیم تھے جن کا امریکی معیشت میں حصہ 43.8 ارب ڈالر تھا اور 3.78 لاکھ ملازمتیں انہی کی وجہ سے موجود ہیں۔

ہندوستان، چین، کوریا، نائجیریا اور برازیل جیسے ممالک کے لاکھوں طلبہ اس وقت امریکہ جانے کی تیاری میں تھے، مگر اس نئی پالیسی نے ان کے لیے رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں۔ اگر یہی رجحان جاری رہا، تو امریکہ کا عالمی تعلیمی برتری کا دعویٰ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔