ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرف پاور کو 12 ریاستوں اور 5 کاروباری تنظیموں نے عدالت میں کیا چیلنج، آج ہوگا فیصلہ
امریکہ کی 12 ریاستوں اور 5 چھوٹے تاجروں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’’صدر کو اس طرح سے اکیلے فیصلہ لینے کا حق نہیں ہے۔ آئین کے مطابق ٹیکس اور ٹیرف سے منسلک حقوق صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے۔‘‘

ڈونالڈ ٹرمپ (فائل)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اب تک کئی ممالک پر سخت ٹیرف کا اعلان کر ایک ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ بدھ (30 جولائی) کو انہوں نے ہندوستان پر بھی 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر دیا۔ فلسطین کو آزاد ملک کا درجہ دینے والے بیان پر کناڈا کو بھی انھوں نے تجارتی دھمکی دے ڈالی ہے۔ ٹرمپ کے من مانے ٹیرف پر اب امریکہ میں ہی ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔ جمعرات (31 جولائی) کو امریکی عدالت اس بات پر فیصلہ لے گی کہ ٹرمپ نے غیر ملکی سامانوں پر درآمد ڈیوٹی عائد کر کے اپنے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپریل اور فروری میں چین، کناڈا، میکسیکو اور کئی دیگر ممالک سے آنے والی مصنوعات پر زیادہ ٹیرف عائد کر دیا تھا۔ ان کی دلیل تھی کہ یہ قدم امریکہ کی معیشت، ملازمت، اور ڈرگس کی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اب یہ فیصلے قانونی مشکلوں میں پھنس گئے ہیں۔ ٹرمپ کے ان فیصلوں کے خلاف امریکہ کی 12 ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت والی ریاستوں اور 5 چھوٹے تاجروں کی تنظیموں نے عدالت میں عرضی داخل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’صدر کو اس طرح سے اکیلے فیصلہ لینے کا حق نہیں ہے۔ آئین کے مطابق ٹیکس اور ٹیرف سے منسلک حقوق صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے آئی ای ای پی اے نام کے ایک پرانے قانون کا استعمال کیا ہے، جسے ایمرجنسی کی حالت میں دشمن ممالک پر پابندی عائد کرنے کے لیے لایا گیا تھا۔ یہ قانون 1977 میں بنا تھا، لیکن ٹیرف عائد کرنے کے لیے اس کا پہلی بار استعمال ہوا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ قومی ایمرجنسی صورتحال ہے، کیونکہ امریکہ کو تجارت میں بڑے پیمانے پر خسارہ ہو رہا ہے۔ بیرون ملک سے آنے والی فنٹانِل (ایک خطرناک نشیلی اشیاء) کی اسمگلنگ نہیں رک رہی ہے۔ حالانکہ جن ممالک پر ٹیرف عائد کیے گئے ہیں، انہوں نے ٹرمپ کے ان دلائل کو خارج کر دیا ہے۔
اس سے قبل مئی میں ایک نچلی عدالت نے کہا تھا کہ ’’ٹرمپ نے ٹیرف عائد کر کے اپنے حقوق کی حد سے تجاوز کیا ہے۔‘‘ عدالت نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’’آئی ای ای پی اے جیسے قانون کا استعمال صرف حقیقی ایمرجنسی صوررتحال میں ہی کیا جا سکتا ہے نہ کہ پرانے تجارتی خسارے جیسے معاملوں میں۔‘‘ آج جو سماعت ہونے والی ہے اس میں امریکہ کی اپیل عدالت کے تمام 11 جج شامل ہوں گے، ان میں سے 8 کو ڈیموکریٹس اور 3 کو ریپبلیکنس نے مقرر کیا ہے۔ اگر فیصلہ ٹرمپ کے خلاف جاتا ہے تو مانا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ براہ راست سپریم کورٹ تک پہنچ سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ آئی ای ای پی اے کے استعمال کو لے کر ٹرمپ پر 7 سے زائد قانونی مقدمے چل رہے ہیں۔ حال ہی میں واشنگٹن ڈی سی کی ایک عدالت نے بھی ٹرمپ کے خلاف فیصلہ سنایا ہے۔ اب تک کسی بھی عدالت نے یہ نہیں مانا کہ صدر کو بغیر حد کے ٹیرف عائد کرنے کا حق ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔