امریکہ: سی آئی اے عملے میں کٹوتی اور یو ایس ایڈ کی تنظیمِ نو
ٹرمپ نے سی آئی اے اور دیگر خفیہ اداروں سے ہزاروں ملازمتیں کم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جس کے لیے نئی بھرتیوں میں کمی کی جائے گی، جبکہ آئینی چیلنجز کے باعث یو ایس ایڈ کی تنظیمِ نو کی جا رہی ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) اور دیگر بڑی امریکی خفیہ ایجنسیوں میں عملے کی بڑی سطح پر کمی کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق، ٹرمپ کا یہ فیصلہ اہم سرکاری اداروں کے حجم کو کم کرنے کی ان کی کوششوں کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔ سی آئی اے میں 1200 عہدے ختم کیے جائیں گے، جبکہ انٹیلی جنس کے دیگر شعبوں سے ہزاروں ملازمتیں کم کی جائیں گی۔ امریکی کانگریس کے ارکان کو ان مجوزہ کٹوتیوں سے آگاہ کر دیا گیا ہے، جو کئی برسوں کے دوران مرحلہ وار کی جائیں گی اور زیادہ تر نئی بھرتیوں میں کمی کے ذریعے عمل میں آئیں گی، نہ کہ ملازمین کو برطرف کر کے۔
سی آئی اے ترجمان سے جب اس رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے تفصیلات کی تصدیق نہیں کی، تاہم کہا کہ سی آئی اے ڈائریکٹر، جان ریٹکلف، تیزی سے اقدامات کر رہے ہیں تاکہ ایجنسی کا عملہ ٹرمپ انتظامیہ کی قومی سلامتی کی ترجیحات کے مطابق کام کر سکے۔ ترجمان کے مطابق، یہ اقدامات ایک جامع حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کا مقصد سی آئی اے میں نئی توانائی کا اضافہ کرنا، ابھرتے ہوئے اہلکاروں کو مواقع فراہم کرنا اور ایجنسی کو اس کے مشن کی بہتر تکمیل کے لیے تیار کرنا ہے۔
ٹرمپ کے مقرر کردہ جان ریٹکلف نے جنوری میں سی آئی اے ڈائریکٹر کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ انہوں نے امریکی قانون سازوں کو بتایا تھا کہ ان کی قیادت میں ایجنسی ایک جامع، غیرجانبدار اور بصیرت افروز تجزیہ فراہم کرے گی، اور کبھی بھی سیاسی یا ذاتی تعصبات کو فیصلوں یا معلوماتی رپورٹس پر اثر انداز نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم دنیا کے ہر کونے سے، چاہے وہ کتنا ہی دور یا مشکل کیوں نہ ہو، خاص طور پر انسانی انٹیلی جنس اکٹھا کریں گے، اور امریکی صدر کی ہدایت پر خفیہ کارروائیاں بھی انجام دیں گے — ایسی جگہوں پر جائیں گے جہاں کوئی اور نہیں جا سکتا اور وہ کام کریں گے جو کوئی اور نہیں کر سکتا۔ بعد ازاں، انہوں نے سی آئی اے کے افسران سے کہا تھا: "اگر یہ سب کچھ وہی لگتا ہے جس کے لیے آپ نے یہ پیشہ اختیار کیا تھا، تو پھر تیار ہو جائیں اور فرق ڈالنے کے لیے کمر کس لیں۔ اور اگر ایسا نہیں لگتا، تو پھر شاید یہ وقت ہے کہ آپ کوئی اور راستہ اختیار کریں۔"
سی آئی اے نے مارچ میں اعلان کیا تھا کہ وہ ٹرمپ حکومت کی تنظیمِ نو کی پالیسی کے تحت ایک غیر متعین تعداد میں جونیئر افسران کو ملازمت سے برخاست کرے گی۔ سی آئی اے ترجمان کے مطابق، وہ افسران جن کے رویے میں مسائل ہوں یا جو انٹیلی جنس کے کام کے لیے موزوں نہ سمجھے جائیں، انہیں نکال دیا جائے گا۔ ترجمان کے مطابق، ہر کوئی اس کام کے دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں سی آئی اے نے فروری میں کچھ ملازمین کو مالی ترغیبات کی پیشکش کی تھی، لیکن یہ واضح نہیں کہ کتنے ملازمین نے یہ پیشکش قبول کی۔
دوسری جانب امدادی ادارے امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کو ختم کرنے کی کوششوں پر آئینی چیلنجز کے بعد، مارچ کے اوائل میں، ٹرمپ انتظامیہ نے کانگریس کو مطلع کیا کہ وہ اس کی تنظیمِ نو کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اسی وقت، محکمہ خارجہ نے بھی عملے میں کمی کا اعلان کیا، کیونکہ وہ یو ایس ایڈ کے کام کو ختم کر کے اس کے افعال کو اپنے اندر شامل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یو ایس ایڈ کو امریکی کانگریس کے ایک قانون کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ تاہم 28 مارچ کو، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اشارہ دیا کہ ٹرمپ انتظامیہ اس ادارے کے خودمختار افعال کو محکمہ خارجہ میں ضم کر دے گی اور اسے صدارتی کنٹرول کے تحت لایا جائے گا۔ روبیو نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا: "ہم اپنے غیر ملکی امدادی پروگراموں کو اس انداز میں دوبارہ ترتیب دے رہے ہیں کہ وہ براہِ راست امریکہ اور ہمارے شہریوں کے بہترین مفاد سے ہم آہنگ ہوں۔ ہم اہم جان بچانے والے پروگراموں کو جاری رکھیں گے اور ایسی حکمتِ عملی کے تحت سرمایہ کاری کریں گے جو ہمارے شراکت داروں اور خود ہمارے ملک کو مضبوط بنائے۔"
تاہم ناقدین نے ٹرمپ انتظامیہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنی انتظامی حدود سے تجاوز کر رہی ہے اور ان خودمختار اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو اس کی ترجیحات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس کے مطابق، حکام کا ارادہ ہے کہ یو ایس ایڈ کے کچھ افعال کو یکم جولائی 2025 تک محکمہ خارجہ کے ساتھ ہم آہنگ کر کے دوبارہ منظم کر دیا جائے، جبکہ وہ افعال جو انتظامیہ کی ترجیحات سے مطابقت نہیں رکھتے، انہیں مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ بروس نے اس امکان کی بھی تردید کی کہ یو ایس ایڈ کو ختم کرنے کا عمل میانمار اور تھائی لینڈ میں آنے والے زلزلوں جیسی بین الاقوامی آفات کے بعد امریکی امدادی ردِعمل کی صلاحیت کو متاثر کرے گا۔
امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کانگریس کے اختیار کے تحت 1961 کے فارن اسسٹنس ایکٹ کے ذریعے قائم کی گئی تھی۔ تاہم یہ ایجنسی وزیر خارجہ کے ماتحت کام کرتی ہے۔ ٹرمپ کے دوسرے صدارتی دور کے آغاز تک، یہ ایجنسی دنیا میں غیر ملکی امداد فراہم کرنے والے سب سے بڑے اداروں میں شمار ہوتی تھی۔ لیکن جب ٹرمپ نے غیر ملکی امداد پر پابندی عائد کی، تو اس کی سرگرمیاں بڑی حد تک رک گئیں۔ سال 2023 میں، امریکہ نے تقریباً 72 ارب ڈالر کی غیر ملکی امداد فراہم کی، جس میں سے لگ بھگ نصف کی تقسیم کی ذمہ داری یو ایس ایڈ کے پاس تھی۔ تاہم وزیر خارجہ روبیو کے مطابق، یو ایس ایڈ کے 83 فیصد معاہدے اب منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔