افغانستان: کابل میں پانی کا بحران

شدید آبی بحران کے شکار کابل میں زیر زمین پانی ختم ہو رہا ہے اور آلودگی عام ہو چکی ہے۔ ایک رپورٹ میں بہتر حکمرانی اور امدادی اداروں و نجی شراکت پر زور دیا گیا ہے تاکہ 2030 تک پانی کی کمی کو روکا جا سکے

<div class="paragraphs"><p>افغانستان میں آبی بحران کی علامتی تصویر / اے&nbsp;آئی</p></div>

افغانستان میں آبی بحران کی علامتی تصویر / اےآئی

user

مدیحہ فصیح

غیرسرکاری تنظیم یا این جی او ‘مرسی کور’ نے اپنی ایک رپورٹ میں افغان دارالحکومت کابل کے آبی بحران، شہر میں پانی تک رسائی، صحت اور استحکام کو درپیش خطرات کا خاکہ پیش کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، کابل میں زیرِ زمین پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، آلودگی عام ہو چکی ہے، اور پانی، صفائی اور حفظانِ صحت پروگراموں کے لیے فنڈنگ فی الوقت تاریخی کم ترین سطح پر ہے۔ دوسری جانب ڈیٹا کی کمی اور ناقص ہم آہنگی ردعمل کو متاثر کر رہی ہے۔ پرانے تخمینے، بکھرا ہوا پروگرامنگ اور معلومات کا عدم اشتراک امدادی کوششوں کو غیرمؤثر بنا رہے ہیں۔ رپورٹ میں انسانی امدادی اداروں اور عطیہ دہندگان کے لیے فوری ترجیحات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی عملی اور مربوط حل بھی پیش کیے گئے ہیں جن میں بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری شامل ہے ـ امدادی اداروں اور نجی شعبے کے درمیان شراکت داری پر زور دیا گیا ہے، تاکہ آبی بحران کو روکا جا سکے اور کابل میں پانی کی کمی کا دیرپا حل تلاش کیا جا سکے۔

اس حوالے سے ‘دی گارجین’ میں شائع رپورٹ کے مطابق ،کابل کے 70 لاکھ افراد کو ایک وجودی بحران کا سامنا ہے، جس پر دنیا کو فوری طور پر توجہ دینی چاہیے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کابل پہلا جدید شہر بن سکتا ہے جو مکمل طور پر پانی سے محروم ہو جائے۔ تیز شہری ترقی اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث گزشتہ دہائی کے دوران کابل کے زیرِ زمین پانی کی سطح 30 میٹر تک گر چکی ہے۔ دوسری جانب، شہر کے تقریباً نصف بور ویل ـ جو کہ پینے کے پانی کا بنیادی ذریعہ ہیں ـ خشک ہو چکے ہیں۔ فی الوقت زیرِ زمین پانی نکالنے کی شرح، قدرتی طور پر اس کے دوبارہ بھرنے کی شرح سے سالانہ 4 کروڑ 40 لاکھ مکعب میٹر زیادہ ہے۔ اگر یہ رجحانات جاری رہے، تو کابل کے تمام زیرِ زمین پانی کے ذخائر 2030 تک خشک ہو سکتے ہیں، جو شہر کے 70 لاکھ باشندوں کے لیے وجودی خطرہ ہے۔

کابل کے آبی بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے مرسی کور افغانستان کے کنٹری ڈائریکٹر ڈین کری نے کہا "اس بحران کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس پر بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے۔ پانی نہ ہونے کا مطلب ہے کہ لوگ اپنی آبادیوں کو چھوڑ دیں گے، لہٰذا اگر عالمی برادری افغانستان کی پانی کی ضروریات کو نظر انداز کرے گی تو اس کے نتیجے میں مزید نقل مکانی اور افغانوں کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔"


رپورٹ میں پانی کی آلودگی کو بھی ایک وسیع مسئلے کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔ کابل کا تقریباً 80 فیصد زیرِ زمین پانی غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے، جس میں آلودگی، نمکینی اور آرسینک کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔ کابل میں پانی تک رسائی ایک روزمرہ کی جنگ بن چکی ہے۔ کچھ خاندان اپنی آمدنی کا 30 فیصد تک صرف پانی پر خرچ کرتے ہیں، جبکہ دو تہائی سے زائد خاندان پانی سے متعلق قرضوں میں مبتلا ہیں۔کابل کے علاقے خیر خانہ کی ایک استاد نازیفہ نے کہا،"افغانستان بہت سے مسائل کا سامنا کر رہا ہے، لیکن پانی کی قلت سب سے سنگین ہے۔ ہر گھرانہ مشکلات کا شکار ہے، خاص طور پر وہ جن کی آمدنی کم ہے۔ مناسب اور معیاری کنویں کا پانی اب موجود ہی نہیں۔" کچھ نجی کمپنیاں اس بحران سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، وہ نئے کنویں کھود رہی ہیں اور بڑے پیمانے پر زیرِ زمین پانی نکال کر اسے مہنگے داموں پر شہر کے لوگوں کو بیچ رہی ہیں۔ نازیفہ نے کہا کہ "ہم پہلے ہر 10 دن بعد 500 افغانی دے کر اپنے کین بھر لیتے تھے۔ اب یہی مقدار ہمیں ایک ہزار افغانی میں ملتی ہے۔ پچھلے دو ہفتوں میں صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ یہ اور بھی مہنگی ہو جائے گی۔"

سال 2001 میں کابل کی آبادی دس لاکھ سے بھی کم تھی، مگر اب یہ سات گنا بڑھ چکی ہے، جس سے پانی کی طلب میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں مرکزی حکومت اور قواعد و ضوابط کے فقدان نے اس مسئلے کو دہائیوں سے برقرار رکھا ہے۔سال 2025 کے اوائل میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے ہم آہنگی انسانی امور نے اعلان کیا کہ ان کے شراکت داروں کو افغانستان میں منصوبہ بند پانی اور صفائی کے پروگراموں کے لیے درکار 26 کروڑ 40 لاکھ ڈالر میں سے صرف 84 لاکھ ڈالر موصول ہوئے ہیں۔ مزید برآں، اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد 3 ارب ڈالر کی بین الاقوامی فنڈنگ منجمد ہے۔ امریکہ کی جانب سے ‘یو ایس ایڈ’ فنڈنگ میں80 فیصد سے زائد کٹوتی نے بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔

مرسی کور افغانستان کے کنٹری ڈائریکٹر ڈین کری نے کہا، "سب کچھ امداد پر منحصر ہے۔ ہم وقتی حلوں پر لاکھوں ڈالر خرچ کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ضرورت پوری کر دی، لیکن یہ ضرورت اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک طویل مدتی حل کے لیے بہتر سرمایہ کاری نہیں کی جاتی۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں سیاسی حالات کے باعث غیر ملکی حکومتیں رک گئی ہیں۔"لیکن نازیفہ اس سے متفق نہیں اور کہتی ہیں کہ "پانی انسان کا بنیادی حق اور افغانستان کا قدرتی اثاثہ ہے۔ یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب میں باغ کے پھولوں اور پھل دار درختوں کو سوکھتے ہوئے دیکھتی ہوں۔ لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم اس وقت ایک فوجی ریاست میں جی رہے ہیں، اس لیے حکومت سے شکایت بھی نہیں کر سکتے۔"

پنجشیر دریا کی پائپ لائن ایک ایسا منصوبہ ہے جو اگر مکمل ہو جائے، تو کابل شہر کا زیرِ زمین پانی پر انحصار کم کر سکتا ہے اور 20 لاکھ باشندوں کو پینے کا پانی فراہم کر سکتا ہے۔ اس منصوبے کے ڈیزائن مرحلے 2024 کے آخر میں مکمل ہو چکے ہیں اور اب بجٹ کی منظوری کے منتظر ہیں، حکومت اس کے ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر کے اخراجات کے لیے مزید سرمایہ کار تلاش کر رہی ہے۔اس صورتحال پر آبی وسائل کے انتظام پر سینئر محقق اور افغان واٹر اینڈ انوائرمنٹ پروفیشنلز نیٹ ورک کے رکن، ڈاکٹر نجیب اللہ سدید نے کہا "ہمارے پاس وقت نہیں کہ ہم بجٹ کا انتظار کرتے رہیں۔ ہم ایک ایسے طوفان میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ نہیں اگر ہم فوری اقدام نہ کریں۔کابل کے لوگ ایسی صورتحال میں ہیں جہاں انہیں خوراک اور پانی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، مقامی لوگ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے اسے پائیدار حل کے لیے لگانے کو تیار ہیں۔ جو منصوبہ فوری فائدہ دے، وہی ترجیح ہے۔ ہمیں بس کسی ایک جگہ سے آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔