شام کی تقسیم کی کسی بھی کوشش پر ترکیہ کا براہِ راست مداخلت کا انتباہ، اسرائیل کو بھی سخت پیغام
ترکیہ نے شام کو تقسیم کرنے کی کسی بھی کوشش کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے براہِ راست مداخلت کی دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ مسئلہ کا اصل ذمہ دار اسرائیل ہے

ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حکان فیدان / Getty Images
انقرہ: ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے کہا ہے کہ انقرہ شام کو تقسیم کرنے کی کسی بھی کوشش کو روکنے کے لیے براہِ راست مداخلت کرے گا اور لڑاکا گروہوں کی جانب سے خودمختاری حاصل کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنائے گا، یہ بیان جنوبی شام میں حالیہ جھڑپوں کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔
ڈان میں شائع خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکان فیدان کا کہنا تھا کہ شام کی تقسیم کے خلاف ان کی یہ وارننگ دراصل اسرائیل کے لیے ہے، کیونکہ ترکیہ کا ماننا ہے کہ شام میں اسرائیل کا اصل مقصد ملک کو تقسیم کرنا ہے۔
انہوں نے گزشتہ ہفتے دمشق پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ شام میں امن و استحکام قائم کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے، حکان فیدان کے مطابق جنوبی صوبہ سویدا میں دروز جنگجوؤں اور شامی بدو قبائل کے درمیان لڑائی اسرائیل کی علاقائی عدم استحکام کی پالیسی کا حصہ ہے۔
ترکیہ، جو نیٹو کا رکن ملک ہے، شام کی نئی حکومت کی حمایت کرتا ہے اور اس نے دروز اور بدو جنگجوؤں کے درمیان فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
حکان فیدان نے کہا کہ اسرائیل ایک منقسم شام چاہتا ہے تاکہ ملک کو کمزور کر کے پورے خطے کے لیے بوجھ بنا دیا جائے اور اسی غیر یقینی صورتحال سے کرد وائی پی جی (یونٹس آف پروٹیکشن) فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ’’انشا اللہ، ہم اس پالیسی کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
انہوں نے بالواسطہ طور پر وائی پی جی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شام میں موجود گروہوں کو ایسی افراتفری کو خودمختاری یا آزادی حاصل کرنے کا ایک موقع نہیں سمجھنا چاہیے، کیونکہ ایسا کرنا ’ایک بہت بڑی اسٹریٹجک تباہی‘ کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ ان کا کہنا تھاکہ ’یہ راستہ کہیں نہیں جاتا‘۔
ترکیہ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے، جو امریکی حمایت یافتہ ’سیرین ڈیموکریٹک فورسز‘ کی قیادت کرتی ہے اور ان کے خلاف کئی سرحد پار فوجی کارروائیاں بھی کر چکا ہے۔ حکان فیدان نے واضح طور پر کہا کہ ’’ہم خبردار کر رہے ہیں، کوئی بھی گروہ تقسیم کے عزائم نہ رکھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بہت سے مسائل کو سفارتی ذرائع سے حل کیا جا سکتا ہے لیکن اگر آپ اس حد سے آگے جا کر تقسیم یا عدم استحکام کی کوشش کرتے ہیں، تو ہم اسے اپنی قومی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ سمجھیں گے اور مداخلت کریں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔