امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی بحران کا شکار
ٹرمپ کی غیر ملکی امداد پر پابندی کے باعث امدادی تنظیمیں اپنے پروگراموں میں رکاوٹ اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہی ہیں، جبکہ امریکی قانون سازوں کو خوف ہے کہ یو ایس ایڈ کو ختم کیا جا سکتا ہے

تصویر سوشل میڈیا
امریکی صدر کے طور پر اپنی دوسری مدت میں، ڈونلڈ ٹرمپ نے ’امریکہ فرسٹ‘ پالیسی کے تحت غیر معمولی فیصلے کیے ہیں جنہوں نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے غیر ملکی امداد منجمد کر دی ہے جس کی وجہ سے بہت سی تنظیموں اور ایجنسیوں کے مستقبل اور ان کی افادیت داؤ پر لگ گئی ہے۔ ایسی ہی ایک تنظیم امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) ہے، جو اس وقت بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ یکم فروری کو یو ایس ایڈ کی ویب سائٹ بغیر کسی وضاحت کے آف لائن ہو گئی، ساتھ ہی ایجنسی میں وسیع پیمانے پر چھٹیوں، برطرفیوں اور پروگراموں کی بندش دیکھنے میں آئی۔ ایسا امریکی فنڈز سے چلنے والی امداد پر پابندی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ یہ پابندی جو 20 جنوری 2025 کو شروع ہوئی تھی، یو ایس ایڈ اور اس کے دنیا بھر میں زندگی بچانے والے پروگراموں کے مستقبل کے بارے میں تشویشات کو جنم دے رہی ہے۔
یو ایس ایڈ، جو صدر جان ایف کینیڈی نے سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کے اثرات کو کم کرنے کے لیے قائم کی تھی، امریکی عالمی انسانی، ترقیاتی اور سیکورٹی کی کوششوں کا مرکز رہی ہے۔ پچھلے دو ہفتوں میں، ٹرمپ انتظامیہ کے غیر ملکی امداد منجمد کرنے سے اربوں ڈالر کے پروگراموں کو معطل کر دیا گیا ہے، اور امریکی فنڈز سے چلنے والے پروگراموں کی رفتار رک گئی ہے۔ یو ایس ایڈ کے سینئر حکام کو چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے، ٹھیکیداروں کو برطرف کر دیا گیا ہے، اور امدادی تنظیمیں تذبذب کا شکار ہیں کہ کون سے پروگرام جاری رہیں گے اور کون سے بند ہو جائیں گے۔
ایجنسی کے مستقبل پر تشویش
غیر ملکی امداد پر پابندی کو امریکہ کے ایوان ذیلی یا کانگریس میں ڈیموکریٹس کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ صدر ٹرمپ یو ایس ایڈ کو ایک آزاد ایجنسی کے طور پر ختم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ڈیموکریٹک قانون سازوں بشمول سینیٹر کرس مرفی نے خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ کو اس ایجنسی کو ختم کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے، جو گزشتہ چھ دہائیوں سے امریکی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے لیے اہم رہی ہے۔ مرفی نے ٹرمپ کے ممکنہ اقدامات کو ’آئینی بحران‘ اور آمرانہ اقدامات قرار دیا ہے۔
دریں اثنا، صدر ٹرمپ اور کانگریس میں ریپبلکن اراکین طویل عرصے سے غیر ملکی امداد کے پروگراموں کو فضول خرچ سمجھتے ہیں، خاص طور پر ان پروگراموں کو جو ان کے مطابق لبرل سماجی ایجنڈوں کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو غیر ملکی امداد کے اخراجات کو کم کرنا چاہیے اور وسائل کو داخلی ترجیحات پر دوبارہ مختص کرنا چاہیے، جب کہ کچھ ریپبلکن ممبران یو ایس ایڈ کی پالیسی اور فنڈز پر وزارت خارجہ کا کنٹرول چاہتے ہیں۔
عملے کا بحران، پروگراموں کی بندش
امداد منجمد ہونے کا یو ایس ایڈ کے عملے پر گہرا اثر پڑا ہے، جس کے نتیجے میں سینئر حکام چھٹی پر بھیج دیئےگئے اور ٹھیکیدار برطرف ہو گئے ہیں۔ 28 جنوری کو، بہت سے ادارہ جاتی خدمات پر معمور ٹھیکیداروں کو اچانک چھٹی پر بھیج دیا گیا، جس سے یو ایس ایڈ کی کارروائیوں میں خلا پیدا ہو گیا۔ عملے کو بھی غیر ملکی امداد کی منجمندی سے مستثنیٰ کچھ پروگراموں کے لیے درخواستیں جمع کرانے کے لیے کہا گیا تھا، لیکن جو لوگ اس عمل میں مصروف تھے، ان میں سے بہت سے افراد چھٹی پر چلے گئے یا ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔
یو ایس ایڈ اس وقت جیسن گرے کے تحت کام کر رہی ہے۔ وہ ایجنسی کی کارروائیوں کا جائزہ لے رہے ہیں اور یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ تمام کارروائیاں صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کے مطابق ہوں۔ ایک میمو کے مطابق، گرے نے واضح کیا کہ کچھ ملازمین نے ایسے اقدامات میں حصہ لیا ہے جو امریکی صدر کے احکام کو بائی پاس کرنے کے مترادف ہیں، بشمول تنوع، مساوات، اور شمولیت کے پروگراموں میں ملوث ہونا، جنہیں ٹرمپ انتظامیہ نے ممنوع قرار دیا ہے۔
انسانی امداد کو خطرہ
امداد فراہم کرنے والی تنظیمیں خاص طور پر اس پابندی کے اثرات پر تشویش کا شکار ہیں، کیونکہ یہ زندگی بچانے والے پروگراموں کو متاثر کر رہی ہے۔ امداد کی روک تھام نے تنظیموں کو اس بات کے بارے میں غیر یقینی بنا دیا ہے کہ وہ انتہائی غذائی قلت کا شکار بچوں کو یا پناہ گزینوں کو ایمرجنسی طبی امداد فراہم کرنے جیسے اہم پروگرام جاری رکھ سکیں گے یا نہیں۔ صورتحال اس لیے مزید سنگین ہو گئی ہے کیونکہ امداد میں تاخیر نے ضروری ادویات اور سامان کی فراہمی میں خلل ڈال دیا ہے، جس سے کئی متاثرہ افراد کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، جنہیں امداد کی منجمندی کے نفاذ کی نگرانی کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے، نے وضاحت کی ہے کہ کون سے پروگرام پابندی سے مستثنیٰ ہوں گے۔ 28 جنوری کو روبیو نے ’زندگی بچانے والی‘ امداد جیسے طبی خدمات، کھانا اور پناہ فراہم کرنے والے پروگراموں کو مستثنیٰ قرار دینے کے دائرہ کو وسیع کیا۔ تاہم، امدادی تنظیمیں اب بھی ان پروگراموں کے جاری رہنے کے بارے میں بہت زیادہ غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہی ہیں۔ روبیو کے مطابق، جائزہ عمل یہ دیکھے گا کہ آیا غیر ملکی امداد کے منصوبے امریکہ کو ’محفوظ، مضبوط یا زیادہ خوشحال‘ بنانے میں مدد دیتے ہیں۔
امریکی حکام کی یقین دہانیوں کے باوجود، امداد پر پابندی نے پہلے ہی ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی غیر ملکی امداد کو روک دیا ہے، اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ یا وزارت خارجہ اب بھی متعدد استثنا کی درخواستوں کا جائزہ لے رہی ہے، جن میں سے بہت ساری درخواستیں تفصیلات کی کمی کی وجہ سے واپس کر دی گئی ہیں۔ عالمی سطح پر ان کٹوتیوں کے اثرات دور رس ہیں، جس سے لاکھوں افراد کو اہم وسائل اور خدمات تک رسائی نہیں مل رہی ہے۔
یو ایس ایڈ اور عالمی امداد کا مستقبل
یو ایس ایڈ کا مستقبل اس وقت غیر یقینی ہو گیا ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے ’امریکہ سب سے پہلے‘ یا ’امریکہ فرسٹ‘ ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ اگر یہ پابندی جاری رہتی ہے، تو دنیا کی سب سے بڑی انسانی امداد دینے والی قوم اپنی کارروائیوں کو شدید طور پر کم کر دے گی، جبکہ دیگر ممالک، جیسے چین، اپنے غیر ملکی امداد کے پروگراموں کو بڑھا رہے ہیں۔ قانون ساز، امدادی تنظیمیں اور عالمی رہنما ٹرمپ انتظامیہ کے اگلے اقدامات پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں، بعض کا خدشہ ہے کہ یو ایس ایڈ کی آزاد حیثیت کے علاوہ ایسے اہم غیر ملکی امدادی پروگراموں کا خاتمہ ہو سکتا ہے جن پر کئی ممالک انحصار کرتے ہیں۔اس وقت دنیا تیزی سے بدلتے ہوئے امریکی غیر ملکی امداد کے منظرنامے کا سامنا کر رہی ہے، جس کے عالمی انسانی امدادی کوششوں اور امریکی خارجہ پالیسی پر طویل مدتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔