ٹرمپ کا محدودِ شہریت سے متعلق حکم نافذ، 28 ریاستوں میں پیدائشی شہریت پر پابندی، ہر سال تقریباً 1.5 لاکھ بچے ہوں گے متاثر!
واشنگٹن ڈی سی سمیت 22 ریاستوں اور خودمختار وفاقی دارالحکومت نے عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے، جس کے باعث وہاں اس فیصلے پر عمل درآمد فی الحال ممکن نہیں۔

ٹیکساس: آج امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس متنازع ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف جاری قومی سطح کی پابندی ختم کر دی ہے۔ متنازع ایگزیکٹو آرڈر کے تحت غیر قانونی یا عارضی ویزے پر مقیم والدین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو امریکی شہریت دینے کا عمل روکا جانا تھا، عدالتِ عظمیٰ کے 6-3 کے فیصلے کے بعد اب یہ حکم 28 امریکی ریاستوں میں 27 جولائی 2025 سے نافذ العمل ہوگا، جس میں ریاست ٹیکساس بھی شامل ہے جبکہ دیگر 22 ریاستوں میں عدالتوں کے جاری کردہ انجکشنز کے باعث عارضی طور پر اس کے اطلاق پر پابندی برقرار ہے۔
ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر کا اطلاق اُن بچوں پر ہوگا جو 19 فروری 2025 یا اس کے بعد پیدا ہوئے ہوں اور جن کے والدین غیر قانونی مہاجر ہوں یا محض عارضی ویزہ ہولڈر، امریکی آئین کی 14 ویں ترمیم کے تحت اب تک ہر ایسے بچے کو پیدائش کے وقت خود بخود امریکی شہریت حاصل ہوتی رہی ہے، مگر ٹرمپ انتظامیہ نے اس شق کی نئی تعبیر پیش کی جس میں شہریت کو والدین کی قانونی حیثیت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کے بعد جن 28 ریاستوں میں اس حکم پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے ان میں ٹیکساس، فلوریڈا، اوہائیو، جورجیا، انڈیانا، الاباما، ٹینیسی، کینساس، نیبراسکا، لوئیزیانا، مسیسیپی، آئیووا، نارتھ و ساؤتھ ڈکوٹا، مونٹانا، ویومنگ، آکلاہوما، ایریزونا، نیواڈا، یوٹاہ، میزوری، آرکنساس، آلاسکا، ایڈاہو، ویسٹ ورجینیا، نارتھ کیرولائنا، کینٹکی اور نیو میکسیکو شامل ہیں۔ ان ریاستوں نے یا تو عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج نہیں کیا یا عدالت نے ان کے حق میں کوئی پابندی عائد نہیں کی، اس کے برعکس کیلیفورنیا، نیویارک، واشنگٹن، میساچوسٹس، میری لینڈ، اوریگون، مشی گن، نیو جرسی، پنسلوانیا، کولوراڈو، منیسوٹا، ورجینیا، ڈیلاویئر، روڈ آئی لینڈ، ہائیوائی، مین، نیواڈا، ورمونٹ، نیو ہیمپشائر، کنیکٹیکٹ، وسکونسن، نیو میکسیکو اور واشنگٹن ڈی سی سمیت 22 ریاستوں اور خودمختار وفاقی دارالحکومت نے عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے، جس کے باعث وہاں اس فیصلے پر عملدرآمد فی الحال ممکن نہیں۔
امریکی ادارے امیگرنٹ لیگل ریسورس سینٹر اور امریکن سول لبرٹیز یونین کے مطابق، اس قانون کے اطلاق سے ہر سال تقریباً 1.5 لاکھ بچے متاثر ہو سکتے ہیں، ان میں وہ بچے شامل ہوں گے جن کے والدین قانونی حیثیت نہیں رکھتے، یا جن کا ویزہ عارضی ہو، جیسے سیاحتی، اسٹوڈنٹ یا ورک پرمٹ، ایسے خاندانوں کے لیے یہ فیصلہ ایک بڑے بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے کیونکہ ان بچوں کو پیدائش کے فوراً بعد شہریت نہ ملنے کی صورت میں مستقبل میں تعلیمی، طبی، قانونی اور روزگار سے متعلق سہولتیں محدود ہو سکتی ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق اگرچہ سپریم کورٹ نے اس حکم کی آئینی حیثیت پر براہ راست کوئی رائے نہیں دی، مگر عدالت کا فیصلہ وفاقی عدالتوں کو ملک گیر پابندیاں لگانے سے روکنے کے لیے ایک بڑا موڑ ہے تاہم متاثرہ ریاستوں اور تنظیموں کو اب بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کلاس ایکشن مقدمات دائر کریں۔ درحقیقت، کئی ریاستوں میں نئے مقدمات دائر بھی ہو چکے ہیں جن میں میری لینڈ اور نیو ہیمپشائر شامل ہیں، ان مقدمات کا مقصد اس آرڈر کو وسیع پیمانے پر چیلنج کرنا ہے تاکہ وہ ریاستیں بھی بچ سکیں جہاں اب تک عدالتوں نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔
ادھر ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلے کو اپنی ’قانون کی حکمرانی‘ اور ’صدارتی اختیارات کے تحفظ‘ کی فتح قرار دیا ہے، ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک مٹھی بھر انتہا پسند بائیں بازو کے جج‘ یونیورسل انجکشنز کا استعمال کر کے انتظامیہ کی پالیسیوں کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر سپریم کورٹ نے ان کی راہ روک دی ہے۔ دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ امریکا میں شہریت کے اصول کو علاقہ وار بنیادوں پر تقسیم کرنے کی جانب پہلا قدم ہے، اگر ہر ریاست میں شہریت کی تعریف مختلف ہو گئی تو امریکا جیسے وفاقی ریاستی نظام میں قانونی پیچیدگیاں اور معاشرتی تقسیم میں اضافہ ہوگا۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہ مسئلہ اب بھی حتمی طور پر حل شدہ نہیں ہے۔ آئندہ عدالتی سیشن میں، جو اکتوبر 2025 سے شروع ہوگا، سپریم کورٹ کے سامنے یہ سوال باقاعدہ پیش ہو سکتا ہے کہ آیا صدر کا یہ ایگزیکٹو آرڈر چودہویں ترمیم سے متصادم ہے یا نہیں۔ اگر عدالت نے آئینی بنیادوں پر اسے رد کر دیا تو یہ فیصلہ ہمیشہ کے لیے غیر مؤثر ہو جائے گا تاہم اگر عدالت نے اس کی توثیق کر دی تو امریکا میں شہریت کے قانون کی تاریخ میں ایک نیا باب لکھا جائے گا۔ یہ ایک غیرمعمولی صورتحال ہے، جس کے اثرات امریکا میں لاکھوں خاندانوں اور بچوں پر مرتب ہو سکتے ہیں، ریاستی اور وفاقی سطح پر آئندہ چند مہینے اس معاملے میں فیصلہ کن ثابت ہوں گے، یہ واضح ہے کہ پیدائشی شہریت جیسے بنیادی حق پر اب سیاست، قانون اور عدلیہ کی جنگ شدت اختیار کر چکی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔