ٹرمپ نے مزید 20 ممالک اور فلسطینی اتھارٹی پر لگائیں امریکی سفری پابندیاں
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سفری پابندیاں مزید سخت کرتے ہوئے 20 مزید ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کو فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ حکومت کے مطابق یہ فیصلہ قومی سلامتی کے خدشات کے پیش نظر کیا گیا ہے

واشنگٹن: امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی سفری پابندیوں کو مزید سخت کرتے ہوئے ایک نیا حکم نامہ جاری کیا ہے، جس کے تحت 20 مزید ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کو بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد امریکہ میں داخلے اور امیگریشن سے متعلق قوانین پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ سخت ہو گئے ہیں۔
نئے حکم کے مطابق اب مجموعی طور پر 5 ممالک ایسے ہو گئے ہیں جن کے شہریوں کے لیے امریکہ میں داخلہ مکمل طور پر ممنوع ہوگا، جبکہ 15 ممالک کے شہریوں پر جزوی پابندیاں نافذ کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ سفری دستاویزات پر سفر کرنے والے افراد کے امریکہ میں داخلے پر بھی مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ اقدام قومی سلامتی کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھایا گیا ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں وائٹ ہاؤس کے قریب دو نیشنل گارڈ اہلکاروں پر فائرنگ کے الزام میں ایک افغان شہری کی گرفتاری نے ان خدشات کو مزید تقویت دی ہے۔ حکام کے مطابق ایسے واقعات اس بات کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں کہ امریکہ میں داخلے سے قبل افراد کی جانچ پڑتال کے نظام کو مزید سخت کیا جائے۔
تاہم ان پابندیوں میں کچھ استثنٰی بھی رکھے گئے ہیں۔ وہ افراد جن کے پاس پہلے سے درست امریکی ویزا موجود ہے، ان پر یہ نئی پابندیاں لاگو نہیں ہوں گی۔ اسی طرح مستقل رہائشی اجازت نامہ رکھنے والے افراد، سفارت کار، کھلاڑی اور بعض مخصوص ویزا زمروں کے حامل افراد کو بھی اس فیصلے سے مستثنٰی قرار دیا گیا ہے۔ اگر کسی شخص کا داخلہ امریکہ کے قومی مفاد میں سمجھا جائے تو خصوصی اجازت دی جا سکتی ہے۔
جون میں نافذ کی گئی ابتدائی پابندیوں کے تحت 12 ممالک کے شہریوں پر مکمل اور 7 ممالک پر جزوی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ اب نئی فہرست میں شامل ممالک کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ ان ممالک میں بدعنوانی عام ہے، سرکاری دستاویزات ناقابلِ اعتبار ہیں اور مجرمانہ ریکارڈ تک رسائی محدود ہے، جس سے مسافروں کی مؤثر جانچ ممکن نہیں رہتی۔
انتظامیہ نے یہ بھی مؤقف اختیار کیا ہے کہ بعض ممالک کے شہری ویزا کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی امریکہ میں قیام کرتے ہیں اور کئی حکومتیں اپنے شہریوں کو واپس لینے سے گریز کرتی ہیں، جو امیگریشن اور سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ خیال رہے کہ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں بھی سفری پابندیاں ایک بڑا تنازعہ رہی تھیں، جن کے خلاف ملک گیر احتجاج اور قانونی چیلنجز سامنے آئے تھے، تاہم بعد میں عدالتوں نے ترمیم شدہ احکامات کو برقرار رکھا تھا۔