ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ڈبلیو ایچ او سے دستبرداری، برڈ فلو کی معلومات کا تبادلہ مشکل

ڈبلیو ایچ او کے مطابق، عالمی ادارہ صحت سے امریکہ کی دستبرداری کے بعد امریکی حکومت سے روایتی رابطے کے ذرائع دستیاب نہیں رہے، جس کی وجہ سے برڈ فلو کے پھیلاؤ سے متعلق معلومات کا تبادلہ اب مشکل ہو گیا ہے

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ / آئی اے این ایس
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ / آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

جنیوا: امریکہ کی عالمی اداراہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے دستبرداری کے بعد برڈ فلو کے پھیلاؤ کے بارے میں معلومات کا تبادلہ ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ترجمان کرِسٹین لِنڈمائر نے جنیوا میں ایک پریس بریفنگ کے دوران اس بات کا انکشاف کیا کہ امریکہ کے ساتھ کمیونیکیشن کی مشکلات میں اضافہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت کے ساتھ رابطے کے روایتی ذرائع اب ختم ہو چکے ہیں، جس کے باعث بیماریوں اور وائرسوں کے بارے میں ضروری معلومات کا تبادلہ مشکل ہو رہا ہے۔ تاہم، انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دیں۔

یہ صورت حال اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکہ میں 2024 کے اپریل میں ایچ5این1 برڈ فلو کا ایک نیا کیس رپورٹ ہوا۔ اس وائرس سے اب تک تقریباً 70 افراد متاثر ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر وہ افراد شامل ہیں جو کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ امریکی صحت ایجنسی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے مطابق، اس وائرس کے انسانی سطح پر منتقلی کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں اور عوامی سطح پر خطرہ کم ہے، تاہم ان افراد کے لیے زیادہ خطرہ ہے جو پرندوں، مرغیوں یا مویشیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔


اس کے علاوہ، امریکہ کی جانب سے عالمی ادارہ صحت سے دستبرداری کے فیصلے کو لے کر عالمی سطح پر تشویش پائی جا رہی ہے، خاص طور پر جب نئے وائرسز اور بیماریوں کے بارے میں معلومات کے تبادلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر کے امریکہ کو عالمی ادارہ صحت سے نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او نے کووِڈ-19 کی وبا کو صحیح طریقے سے نہیں سنبھالا اور امریکہ کو عالمی ادارے میں بہت زیادہ مالی معاونت فراہم کرنی پڑی تھی، جبکہ چین جیسے بڑے ممالک کم مالی تعاون کر رہے تھے۔

امریکہ کی جانب سے عالمی ادارہ صحت سے انخلا کے بعد عالمی سطح پر اس بات پر تشویش ہے کہ امریکہ مستقبل میں وائرسز اور بیماریوں کے پھیلاؤ کے حوالے سے اہم معلومات شیئر کرنا بند کر سکتا ہے۔ اس صورتحال میں عالمی برادری کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر امریکہ نے معلومات کا تبادلہ روک دیا، تو دنیا بھر میں کسی نئے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔

حال ہی میں امریکی ریاست نیواڈا میں برڈفلو کا ایک نیا نوع کا کیس سامنے آیا ہے، جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ وائرس اور بھی تیزی سے پھیل سکتا ہے، اور اگر فوری طور پر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔


ٹرمپ انتظامیہ کا موقف تھا کہ امریکہ ڈبلیو ایچ او کو زیادہ پیسہ فراہم کرتا ہے جبکہ چین جیسے ممالک کم تعاون کرتے ہیں۔ امریکہ نے 2022 اور 2023 میں عالمی ادارے کو 1.28 ارب ڈالر فراہم کیے، جو کہ جرمنی کے 400 ملین ڈالر سے زیادہ تھے۔ اس مالی امداد میں اضافے کے باوجود، ٹرمپ حکومت نے عالمی ادارے کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ امریکہ کو اس ادارے میں رہنے کی ضرورت نہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے حکام اس بات کی امید کر رہے ہیں کہ امریکہ اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرے گا اور عالمی سطح پر صحت کے حوالے سے تعاون بڑھائے گا تاکہ دنیا بھر میں عوامی صحت کے مسائل کا بہتر حل نکالا جا سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔