طالبان نے صوبہ بلخ میں وائی فائی کے استعمال پر لگائی پابندی، غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے لیا گیا فیصلہ

صوبائی ترجمان زید نے کہا کہ ’’سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کے حکم کے بعد بلخ میں کیبل انٹرنیٹ کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ لیکن ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ملک کے اندر ہی متبادل انتظامات کیے جائیں گے۔‘‘

وائی فائی، تصویر آئی اے این ایس
i
user

قومی آواز بیورو

اپنے سخت فیصلہ کے لیے مشہور طالبان حکومت نے ایک اور سخت حکم صادر کر دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ طالبان حکومت کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کے حکم پر شمالی صوبہ بلخ میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ یعنی وائی فائی خدمات پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے لیا گیا ہے۔ اس حکم کے بعد اب صوبہ بلخ میں سرکاری دفاتر، نجی شعبے، سرکاری ادارے اور گھر ’وائی فائی انٹرنیٹ‘ سے محروم ہو گئے ہیں۔

طالبان حکومت نے واضح کیا ہے کہ اس فیصلہ کے باوجود موبائل انٹرنیٹ خدمات اب بھی فعال رہیں گی۔ صوبائی ترجمان حاجی عطاء اللہ زید نے کہا کہ سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کے حکم کے بعد بلخ میں کیبل انٹرنیٹ کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ملک کے اندر ہی متبادل انتظامات کیے جائیں گے۔


واضح ہو کہ اگست 2021 میں برسر اقتدار ہونے کے بعد طالبان نے کئی معاشرتی اور ثقافتی پابندیاں عائد کی ہیں، لیکن ایسا پہلی بار ہے جب انٹرنیٹ خدمات پر اس طرح کی براہ راست پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس فیصلے سے تعلیم اور تجارتی اداروں کو کافی نقصان ہوگا۔ ساتھ ہی ملکی اور بین الاقوامی مواصلات بھی متاثر ہوں گے۔ اس سے افغان شہریوں میں ناراضگی اور ڈیجیٹل علیحدگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

صوبہ بلخ میں وائی فائی کی پابندی پر طالبان کی دلیل ہے کہ یہ قدم غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکنے اور اسلامی اقدار کی حفاظت کے لیے اٹھایا گیا ہے، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پابندی افغانستان کو دنیا سے مزید الگ کر دے گا۔ تعلیم، صحت اور تجارت سے متعلق شعبوں میں ڈیجیٹل بحران گہرا ہو جائے گا۔ یہ عوام کی اظہار رائے کی آزادی اور پیغامات تک رسائی کو محدود کر دے گا۔