شام نے ترکیہ سے الگ راہ اختیار کی، ساحل سمندر کے لیے نیا ڈریس کوڈ جاری، خواتین کو برقینی پہننا لازمی

شام کے وزیر سیاحت مازن الصلحانی نے نئے ڈریس کوڈ گائیڈ لائن کے فیصلے کو عوامی بتاتے ہوئے کہا کہ ’’یہ سماجی اور مذہبی تنوع کا احترام کرتا ہے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>شام کے صدر احمد الشرع / تصویر بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

شام کی عبوری اسلامی حکومت نے ساحل سمندر اور سویمنگ پول پر خواتین کے لیے برقینی اور یا فُل باڈی سویم ویئر کو لازم قرار دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس مذہبی اور ثقافتی تبدیلی کی جانب ایک بڑا قدم ہے، جو بشار الاسد کی تاناشاہی کے خاتمہ کے بعد شام میں نظر آ رہا ہے۔ اس فیصلہ کے ذریعہ احمد الشرع کی نئی عبوری حکومت نے اسلامی ممالک کو ایک واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ اسلام مخالف ثقافت کو نہیں اپنائے گا، خواہ وہ ترکیہ جیسے اسلامی ممالک میں کیوں نہ رائج ہو۔ یعنی شام نے ترکیہ سے ایک الگ راہ اختیار کر لی ہے۔

دراصل شام کی وزارت سیاحت نے 10 جون کو سمندری ساحل پر جانے والوں کے لیے ڈریس کوڈ کی ایک نئی گائیڈ لائن جاری کی ہے۔ اس کے تحت خواتین صرف برقینی یا فُل باڈی سویم ویئر ہی پہن سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں ساحل سمندر سے جاتے وقت انہیں ڈھیلی چادر یا کفتان پہننا لازمی ہوگا۔ مردوں کے لیے سویمنگ پُل کے علاقہ کے باہر شرٹ پہننا ضروری ہے۔ عوامی جگہوں پر ٹائٹ، جسم ظاہر کرنے والے یا گھٹنوں سے اوپر کے کپڑے پہننے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ حالانکہ 4 اسٹار یا اس سے اوپر کے ہوٹلز اور پرائیویٹ سمندری ساحل پر ویسٹرن اسٹائل سویم ویئر، یعنی بکنی وغیرہ پہننے کی اجازت دی گئی ہے۔


واضح ہو کہ شام کی عبوری حکومت مکمل اسلامی طرز عمل کو اپنانے کی طرف گامزن ہے۔ اس عبوری حکومت کی قیادت حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کر رہا ہے جو پہلے النصرہ فرنٹ کے نام سے جانا جاتا تھا، جسے امریکہ و برطانیہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ شام کے وزیر سیاحت مازن الصلحانی نے نئے ڈریس کوڈ گائیڈ لائن کے فیصلے کو عوامی بتاتے ہوئے کہا کہ ’’یہ سماجی اور مذہبی تنوع کا احترام کرتا ہے۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ معروف اسلامی ملک ترکیہ ایک جدید اسلامی جمہوریت کا امیج برقرار رکھا ہوا ہے۔ استانبول، انقرہ اور ازمیر جیسے شہروں میں خواتین مکمل طور سے ویسٹرن ڈریسنگ کو اپناتی ہیں۔ سمندر کنارے بسنے والے شہروں جیسے انطالیہ اور بودروم میں کپڑوں کی آزادی یورپ جیسی ہے۔ برقینی سے لیکر بِکنی تک وہاں کسی بھی چیز پر پابندی نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔