...تو اسرائیل کا کیا ہوگا!

بلنکن نے نیتن یاہو کو متنبہ کیا کہ شاید آپ کو اس کا احساس نہ ہو جب تک کہ بہت دیر ہو جائے اور کہا کہ اسرائیل کی سلامتی اور اس کی عالمی حیثیت خطرے میں ہے

<div class="paragraphs"><p>انٹونی بلنکن / تصویر بشکریہ ڈی ڈبلیو</p></div>

انٹونی بلنکن / تصویر بشکریہ ڈی ڈبلیو

user

نواب علی اختر

فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر قابض اسرائیل کی مسلسل جارحیت اب چھٹے ماہ میں داخل ہو چکی ہے۔ ماہ رمضان المبارک میں بھی صہیونی جارحیت کا سلسلہ تھم نہیں سکا ہے۔ غزہ کے عوام بے حال ہو چکے ہیں۔ 17 لاکھ لوگ اس وقت رفح کراسنگ پر بے یار و مدد گار ہیں۔ امدادی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ امداد کی سرگرمیوں پر بھی اسرائیلی افواج بمباری کر رہی ہیں۔ کچھ امدادی ادارے غزہ میں امدادی سرگرمیوں کا کیمپ قائم کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں اور غزہ کے بے حال لوگوں کی مدد کا کچھ معمولی سلسلہ بھی جاری ہے۔ رفح کراسنگ پر مصر کے راستے آنے والی سینکڑوں ٹرک کی امداد کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

فلسطینی بچے اب بھوک سے مرنا شروع ہو چکے ہیں، مائیں اپنے بچوں کو پہلے صہیونی جارحیت میں قتل ہوتے دیکھ رہی تھیں اور اب بھوک اور قحط سے مرتا دیکھ رہی ہیں۔ روٹی نایاب ہو چکی ہے، ایک آٹے کی تھیلے کی قیمت ہزاروں سے بھی زیادہ ہو چکی ہے، پانی کی بوند بوند کو ترستے غزہ کے نہتے شہری اپنی قسمت کا فیصلہ ہوتے ہوئے پیرس میں دیکھ رہے ہیں۔ فرانس کے شہر پیرس میں ایک معاہدے کو ترتیب دیا جا رہا ہے، اس معاہدے کی گونج کئی ہفتوں سے سنائی دے رہی ہے لیکن اس معاہدے میں امریکہ اور اسرائیل مشترکہ طور پر ایسی شرائط لاگو کرنا چاہتے ہیں، جو فلسطینیوں کے لئے ناقابل قبول ہیں۔


دوسری طرف غزہ پر جارحیت کی مرتکب صہیونی ریاست اسرائیل بھی شدید مشکلات میں ہے۔ جن مقاصد کے تحت غزہ پر جارحیت کا آغاز کیا تھا، آج 175 سے زیادہ دن گزر جانے کے باوجود ایک بھی ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ بڑے پیمانے پر فوجیوں کا جانی نقصان ہو چکا ہے۔ اربوں ڈالر کا جنگی مالیت کا نقصان بھی ان ایام میں ہوا ہے۔ اسرائیل کی اپنی اسٹاک ایکسچینج مسلسل گراوٹ کا شکار ہے، جو اب تک سنبھل نہیں پائی ہے۔ شیکل بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ صہیونی سرمایہ داروں نے اپنا سرمایہ نکال کر یورپ اور امریکہ میں منتقل کر لیا ہے۔ صہیونی ریاست کے اندر سیاسی اور مذہبی خلفشار بھی شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ ایک طرف حماس کی قید میں موجود اسرائیلی فوجیوں کے اہل خانہ ہیں، جو روزانہ کی بنیادوں پر نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے باہر سخت احتجاج کر رہے ہیں اور نیتن یاہو کو غزہ پر جنگ مسلط کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس جنگ کو صہیونیوں کے لیے ایک وبال اور مصیبت قرار دے رہے ہیں۔

وہیں خود نیتن یاہو کی اپنی جماعت کے عہدیداروں نے گذشتہ دنوں امریکہ میں جا کر امریکی صدر اور سی آئی اے کے چیف کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں جبکہ ان ملاقاتوں کے بارے میں نیتن یاہو کو بھی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ ان حالات اور واقعات کے بعد عرب دنیا اور خود غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے تجزیہ نگار یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ صہیونی ریاست کے اندرونی اختلافات انتہائی شدت اختیار کر چکے ہیں اور جیسے ہی غزہ کی جنگ کا خاتمہ ہوگا، یقینی طور پر نیتن یاہو کی حکومت اور اسرائیل کے مستقبل کا بھی خاتمہ یقینی ہو جائے گا۔


ایک اور اہم مسئلہ جو جنگ کے چھٹے ماہ میں سامنے آیا ہے، وہ اسرائیل میں بسنے والا یہودی آباد کاروں کا مذہبی گروہوں ’حریدیم‘ ہے، جو صرف تورات کی تلاوت کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں غاصب صہیونی ریاست نے اس مذہبی گروہ سے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ کے حالات میں وہ اپنے جوانوں کو فوج کی مدد کے لئے جنگ میں اتاریں۔ اس مطالبہ کے جواب میں صہیونی شدت پسند مذہبی گروہ نے نیتن یاہو کو واضح جواب دیا ہے کہ اگر ان پر زور زبردستی کی گئی تو وہ اسرائیل چھوڑ کر یورپ یا کسی مغربی ملک میں چلے جائیں گے، لیکن اسرائیل کی فوج کے لئے اس جنگ میں لڑنے کے لئے شامل نہیں ہوں گے۔

یہی صورت حال کم و بیش دیگر صہیونی آباد کاروں کی بھی ہے، جو پہلے ہی بڑی تعداد میں جنگ کے آغاز سے ہی واپس یورپ چلے گئے تھے، تاہم جنگ کے طول پکڑنے سے اب مسلسل صہیونی آباد کاروں نے اسرائیل سے نکل جانے کو ہی عافیت سمجھ رکھا ہے۔ یہ بات خود اسرائیل کے مستقبل کے لئے سنگین خطرہ بنتی چلی جا رہی ہے۔ بہرحال غزہ پر صہیونی جارحیت کو چھٹا مہینہ جاری ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی حکومتیں اسرائیل کی مکمل پشت پناہی بھی کر رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ خود امریکی حکومت بھی چاہتی ہے کہ جتنا زیادہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی جائے گی، اس قدر زیادہ اسرائیل کی حکومت کے لئے مشکلات بڑھیں گی اور شاید اس ساری صورتحال میں امریکہ اپنے کسی ناپاک عزائم کی تکمیل کا منصوبہ بھی بنا رہا ہے۔


حالانکہ تازہ پیش رفت میں اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے امریکہ نے اسرائیل کی موجودہ روش سے اختلاف کرتے ہوئے نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ آپ غزہ میں پھنس جائیں گے ۔اعلیٰ امریکی سفارت کار نے بنجمن نیتن یاہو اور ان کی جنگی کابینہ کو بتایا کہ اگر وہ اپنے موجودہ راستے پر چلتے رہے تو حماس غزہ میں برقرار رہے گی اور اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے واضح طور پر کہا کہ آپ (اسرائیل) کو ایک مربوط منصوبہ کی ضرورت ہے ورنہ آپ غزہ میں پھنس جائیں گے ۔ انہوں نے جنوبی غزہ میں رفح پر بڑھتے ہوئے حملے کی امریکی مخالفت کا بھی اعادہ کیا۔ بلنکن نے نیتن یاہو کو متنبہ کیا کہ شاید آپ کو اس کا احساس نہ ہو جب تک کہ بہت دیر ہو جائے اور کہا کہ اسرائیل کی سلامتی اور اس کی عالمی حیثیت خطرے میں ہے ۔

اس دوران لبنان بھی صہیونیوں کے سامنے سینہ سپر نظر آ رہا ہے۔ دونوں ممالک میں اس سے پہلے بھی بہت مرتبہ جنگ ہو چکی ہے اور سن 2006ء کی جنگ کافی مشہور ہوئی تھی جو 33 دن چلی تھی اور اسرائیل کو لبنانی قیدی چھوڑنا پڑے تھے، وہ جنگ بھی غزہ وار کی طرح لبنان کے اسرائیلی فوجی اغوا کرنے کے بعد شروع ہوئی تھی اور بدلے میں لبنان نے اسرائیلی جیلوں میں قید اپنے قیدی رہا کروائے تھے۔ اسی حکمت عملی کے تحت حماس نے بھی لبنان کی طرح اسرائیل میں گھس کر بہت سے اسرائیلی فوجی اغوا کر لئے اور حماس کا ارادہ تھا کہ بدلے میں ہم اسرائیلی قید میں اپنے قیدیوں کو رہا کروا لیں گے مگر اسرائیل حماس کی اس حرکت سے غصے میں آگیا اور انا پرستی کا شکار ہو کر فوری حملہ کر دیا، جب پہلے مہینے تک جنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو مجبوراً اسرائیل کو کچھ فلسطینی قیدی چھوڑ کر اپنے قیدی چھڑانا پڑے مگر مختصر سی جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے پھر غزہ پر بھرپور حملہ کر دیا اور جنگ اب تک جاری ہے مگر غصّے میں کئے ہوئے فیصلے اکثر غلط ہوتے ہیں۔


اب جنگ فلسطین بارڈر سے باہر نکل چکی ہے، جنگ کی آگ مسلسل پھیل رہی ہے، ابھی تو فلسطین کا ایک شہر غزہ لڑ رہا ہے، اگر باقی شہر بھی مزاحمت پر اتر آئے تو اسرائیل کا کیا ہوگا اور ویسے بھی فلسطین کی 75 فیصد سے زیادہ آبادی غزہ سے باہر رہتی ہے، اگر اللہ نہ کرے غزہ کو اسرائیل فتح کر بھی لیتا ہے تو فلسطین کے کسی دوسرے شہر سے مزاحمت شروع ہو جائے گی۔ فلسطینی وہ ہیں جو پتھر سے بھی لڑنا جانتے ہیں۔ اسرائیل کی انا پرستی نے جنگ کو اس نتیجے پر پہنچا دیا ہے کہ ملکوں کی بقاء کا مسئلہ ہو گیا ہے، مطلب 2 ملکوں کی لڑائی میں کوئی ایک بچے گا یا تو فلسطین رہے گا یا اسرائیل یا تو لبنان رہے گا یا اسرائیل۔ لڑائی اتنی آگے جاچکی ہے کہ کبھی ملک شام پر حملہ ہوتا ہے، کبھی عراق، کبھی یمن، کبھی لبنان پر، جن جن ممالک پر حملہ ہو چکا ہے وہ مسلسل اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔