افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی سے کابل میں رہائش کا شدید بحران

پاکستان اور ایران سے بڑی تعداد میں بے دخل کیے گئے افغان شہریوں کے کابل پہنچنے سے کرایوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور لوگوں کا اپنے لیے رہائش تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے

<div class="paragraphs"><p>افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی / Getty Images</p></div>
i
user

یو این آئی

کابل: ایران سے زبردستی واپس بھیجے جانے کے کئی ہفتے بعد بھی محمد محسن زریاب کابل میں رہنے کے لیے جگہ تلاش کر رہے ہیں، جہاں کرایوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے کیونکہ پاکستان اور ایران سے بڑی تعداد میں بے دخل کیے گئے افغان شہری وہاں میں پہنچ رہے ہیں۔

ڈان میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے پناہ گزین ادارے کے مطابق اس سال اب تک پاکستان اور ایران سے 21 لاکھ سے زائد افغان واپس آ چکے ہیں، یہ افراد پڑوسی ممالک سے جلاوطنی کی پچھلی لہروں میں شامل ہو گئے ہیں، جہاں انہیں یا تو ملک بدر کیا گیا یا گرفتاری کے خوف نے وہاں سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔

بہت سے واپس آنے والے، جیسے زریاب، تھوڑا سا سامان لے کر کابل آئے اس امید پر کہ آٹھ ملین آبادی والا یہ پھیلتا ہوا شہر ایک ایسے ملک میں روزگار کے بہتر مواقع دے گا جہاں آدھی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

زریاب نے 8 افراد کے اپنے خاندان کے لیے مکان مالکان سے کرایہ کم کرنے کی درخواست کی لیکن جواب ملا ’اگر آپ نہیں دے سکتے تو کوئی اور دے دے گا‘، 47 سالہ فیکٹری ورکر نے کہا کہ جولائی میں وطن واپس آتے وقت انہیں امید تھی کہ دور دراز سے بے گھر ہو کر آنے والے افغانوں کے لیے زیادہ ہمدردی ملے گی۔


کابل کے متعدد پراپرٹی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ واپس آنے والوں کی آمد سے کرایوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، اسٹیٹ ایجنٹ حامد حسنی کے مطابق ’جب سے مکان مالکان کو پتہ چلا کہ (ایران اور پاکستان سے) پناہ گزین واپس آ رہے ہیں، انہوں نے کرائے دوگنا کر دیے‘، انہوں نے حکومت سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ’ہمارے پاس کئی پناہ گزین آتے ہیں جو کرائے پر مکان لینا چاہتے ہیں لیکن زیادہ تر جو کچھ دستیاب ہے، وہ برداشت نہیں کر سکتے’۔

پراپرٹی ڈیلر نبی اللہ قریشی نے بتایا کہ ایک سال پہلے تین کمروں کے مکان کا اوسط ماہانہ کرایہ 10 ہزار افغانی (145 ڈالر) تھا لیکن اب کرایہ دار 20 ہزار افغانی ادا کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق یہ رقم افغانستان کی 4 کروڑ 80 لاکھ آبادی کی اکثریت کے لیے ایک خطیر رقم ہے، کیونکہ 85 فیصد لوگ روزانہ ایک ڈالر سے بھی کم پر گزارہ کرتے ہیں، 2 سال پہلے ہر ماہ کئی مکان مالک نبی اللہ قریشی کے دفتر آتے تھے تاکہ مکان کرائے پر دینے میں مدد لی جا سکے، لیکن اب مانگ رسد سے کہیں زیادہ ہے، بلدیہ شہر میں کسی ہاؤسنگ بحران سے انکار کرتی ہے۔

بڑے شہری ترقیاتی منصوبے، جن میں نئی سڑکوں کی تعمیر کے لیے کئی گھروں کو مسمار کرنا بھی شامل ہے، رہائش کے حصول کو مزید مشکل بنا رہے ہیں۔ بلدیہ کے ترجمان نعمت اللہ بارک زئی کے مطابق ’شہر کا 75 فیصد حصہ بغیر منصوبہ بندی کے تعمیر ہوا تھا، ہم نہیں چاہتے کہ ایسا دوبارہ ہو‘۔


زہرا ہاشمی کو اس تہہ خانے کے کمرے سے بے دخل کیے جانے کا خدشہ ہے جو ایران سے واپسی کے بعد سے ان کا گھر ہے، ان کے شوہر دیہاڑی پر کام کرتے ہیں اور روزانہ تقریباً 80 افغانی (ایک ڈالر سے کچھ زیادہ) کماتے ہیں، جو اس مکان کے کرائے کے لیے ناکافی ہے، جہاں نہ بجلی ہے نہ پانی۔

زہرا ہاشمی نے کہا کہ’جب ہم افغانستان واپس آئے تو ہم سب کچھ کھو چکے تھے’، ان کی بڑی بیٹی اب اسکول نہیں جا سکتی کیونکہ طالبان کے قوانین خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم اور ملازمت سے محروم رکھتے ہیں۔ دو چھوٹی بیٹیاں اگرچہ پرائمری اسکول جا سکتی ہیں لیکن خاندان ٹیوشن فیس ادا کرنے کے قابل نہیں، رہائش کے مسائل نے کابل کے پرانے رہائشیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔

کابل کے مغربی علاقے میں، جہاں کرائے نسبتاً کم ہیں، سلائی سکھانے والی تمنا حسینی نے بتایا کہ ان کے مکان مالک نے 3 کمروں والے اپارٹمنٹ کا 3 ہزار افغانی کرایہ بڑھانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

8 افراد پر مشتمل خاندان نے مکان بدلنے کی کوشش کی، مگر ’کرائے بہت زیادہ ہیں‘، انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک مایوس کن صورتحال ہے کہ نہ آپ رہ سکتے ہیں، نہ جا سکتے ہیں‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔