غزہ میں ہیضہ اور دیگر امراض کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ

اسرائیل کی جانب سے غزہ کے شمالی حصے میں دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو انخلا کا حکم جاری کیے جانے کے بعد مشتاحہ بیوی اور آٹھ سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کو خان یونس میں اپنی خالہ کے گھر چھوڑ آئے ہیں

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

سہیل انجم

اس وقت غزہ کی صورت حال انتہائی بھیانک ہے۔ بے قصور شہری اسرائیلی حملوں میں بھی مر رہے ہیں اور بھوک پیاس سے بھی۔ ان کے پاس نہ تو کھانے پینے کی اشیا ہیں اور نہ ہی ادویات۔ وہ اگر غزہ سے نکلنا بھی چاہیں تو کوئی راہداری بھی نہیں ہے۔ وہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر امدادی اشیا سے لدے ٹرک کھڑے ہیں لیکن ان کو غزہ تک پہنچنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ اس معاملے میں مصر کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اس نے راہداری بند کر رکھی ہے۔ لوگ گندا اور کھارا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جس کی وجہ سے غزہ میں ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں کے پھوٹ پڑنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔

وسیم مشتاحہ ایک این جی او ’آکسفیم‘ میں پانی اور سپلائی کے معاملات کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے چار بچے تقریباً دو ہفتوں سے اسکول نہیں جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے اسکول بھی ختم ہو گئے ہیں تو وہ کہاں اور کیسے جائیں گے۔ اب انہیں ریاضی یا جغرافیہ سیکھنے کے بجائے پانی کی راشننگ کا طریقہ سکھایا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ہر روز ہر ایک کے لیے پانی کی ایک بوتل بھرتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ اسی میں گزارہ کرنے کی کوشش کرو۔ انہوں نے جنوبی غزہ کے شہر خان یونس سے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شروع میں ان کے بچے اس صورت حال سے پریشان تھے لیکن اب وہ حالات سے سمجھوتہ کرنا سیکھنے لگے ہیں۔


اسرائیل کی جانب سے غزہ کے شمالی حصے میں دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو انخلا کا حکم جاری کیے جانے کے بعد مشتاحہ اپنی بیوی اور آٹھ سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کو خان یونس میں اپنی خالہ کے گھر چھوڑ آئے ہیں۔ مشتاحہ اپنے چاروں طرف صحت عامہ کی ایک آنے والی تباہی کے نشانات دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ سڑکوں پر، دکانوں میں، مسجدوں میں اور اپنی گاڑیوں میں سونے پر مجبور ہیں۔ جبکہ حفظان صحت کی مصنوعات اور ادویات سپر مارکیٹوں سے غائب ہو گئی ہیں۔ جو دکانیں کھلی ہیں ان میں پانی کی قیمت سات اکتوبر کے بعد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ پہلے جس پانی کی قیمت 30 شیکل یعنی امریکی ڈالر کے چالیس پیسہ تھی اب اس کی قیمت پندرہ ڈالر ہو گئی ہے۔

آکسفیم اور اقوام متحدہ کے اداروں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر فوری انسانی امداد نہ پہنچائی گئی تو پانی اور صفائی کی خدمات کے خاتمے سے ہیضے اور دیگر مہلک متعدی بیماریاں پھیلیں گی۔ اسرائیل نے حماس کے حملے کے بعد غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد پانی کی پائپ لائن، ایندھن اور بجلی کی فراہمی کی لائن کاٹ دی ہے۔ اس نے سیوریج پلانٹس کو بجلی فراہم کرنے والی لائن بھی کاٹ دی ہے۔ غزہ کے 65 سیوریج پمپنگ اسٹیشنوں میں سے زیادہ تر اور اس کے گندے پانی کی صفائی کے پانچوں یونٹوں کو کام بند کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ آکسفیم کے مطابق اب گندے پانی کو سمندر میں چھوڑا جا رہا ہے۔ جبکہ ٹھوس فضلہ بھی کچھ سڑکوں پر لاشوں کے ساتھ ساتھ دفن ہونے کا منتظر ہے۔


رپورٹ کے مطابق بجلی کی کمی کی وجہ سے رہائشی علاقوں میں پانی کی پمپنگ بند ہو گئی ہے۔ غزہ کے کچھ لوگ واحد آبی ذخیرے کے نمکین نل کے پانی پر انحصار کر رہے ہیں جو سیوریج اور سمندری پانی سے آلودہ ہے۔ یا پھر وہ سمندری پانی پینے کا سہارا لے رہے ہیں۔ دوسروں کو کھیت کے کنوؤں سے پینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت غزہ میں فی شخص روزانہ صرف تین لیٹر پانی دستیاب ہے جس میں پینے، دھونے، کھانا پکانے اور بیت الخلا کو فلش کرنے سمیت ان کی تمام ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ حالانکہ صحت کے عالمی ادارے ’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘ (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ عالمی قوانین کے مطابق ایک شخص کو یومیہ پچاس سے ایک سو لیٹر تک پانی ملنا چاہیے۔

ایک خیراتی ادارے ’اسلامک ریلیف‘ کے ایک ملازم جس نے خان یونس میں پناہ لی ہے، نے بھی ایسی ہی صورتحال بیان کی۔ اس نے بتایا کہ میرے والدین کے گھر میں تقریباً بیس بچے اور سات بالغ پناہ گزیں ہیں۔ بہت سارے لوگوں کے ساتھ ہم پانی کو بچانے کے لیے دن میں صرف دو بار ٹوائلٹ فلش کرتے ہیں۔ ایک بار صبح ایک بار رات کو۔ ہم ایسا کھانا پکاتے ہیں جس میں کم سے کم پانی کا استعمال ہو۔ ہم نماز کے لیے صرف ایک یا دو بار وضو کرتے ہیں۔ ہمارا ایک پڑوسی ہے جس کے پاس کنواں ہے لیکن اس کے پاس پانی پمپ کرنے کے لیے بجلی نہیں ہے۔ اس کے پاس جنریٹر تو ہے لیکن ایندھن نہیں ہے۔


اس کے مطابق جن کے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں ہے ان کے حالات انتہائی سنگین ہیں۔ بچوں اور نوزائیدہ بچوں والے جو خاندان ہیں اور جن کے سروں پر چھت نہیں ہے وہ سڑکوں پر بغیر تحفظ، پانی، خوراک یا کسی بھی چیز کے بیٹھتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی سیکورٹی نہیں ہے۔یہ خدشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ پانی کی کمی اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں ایک انسانی تباہی کا باعث بنیں گی۔

آکسفیم میں انسانی ہمدردی کی پالیسی کے سربراہ میتھیو ٹرسکوٹ کا کہنا ہے کہ وہ اس خیال سے مایوس ہیں کہ بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ حالانکہ پانی اور دوائیں سرحد سے چند کلومیٹر کی مسافت پر ڈھیر ہیں۔ ان کے بقول ہیضہ پانی سے پیدا ہونے والی بہت سی بیماریوں میں سے ایک ہے جو پھیل سکتی ہے۔ اگر ہم اس میں مدد حاصل کر لیں تو بہت کچھ روکا جا سکتا ہے۔ لیکن آپ انسانی بنیادوں پر کوئی کارروائی نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں اب بھی بم گر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیریس نے غزہ میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ آنے والی انسانی اور فطری تباہی کو کم کیا جا سکے۔


گویا اس وقت غزہ کے حالات انتہائی ناگفتہ بہہ ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ عالمی برادری کچھ کر نہیں پا رہی ہے۔ حالانکہ متعدد ملکوں میں اسرائیلی حملے کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے اور اس پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام عاید کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عالمی رہنماؤں کو غزہ کی تباہی اور آنے والے دنوں میں مہلک امراض کے پھیلنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ ان کو بھی ہے لیکن وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پورا مغرب اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے اور عرب و اسلامی ممالک صرف بیان بازی کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔