’پوتن جنگ ختم کرنا ہی نہیں چاہتے‘، یوکرین پر تقریباً 600 ڈرون اور 40 میزائل حملوں کے بعد زیلینسکی کا سخت رد عمل

یوکرینی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے زیلینسکی نے کہا کہ امریکی کمپنی پر ہوئے تازہ روسی حملے میں 15 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

یوکرین کی فضائیہ نے 21 اگست کو دعویٰ کیا کہ روس نے یوکرین پر تازہ ہوائی حملہ کر مغربی علاقوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ حملہ رواں سال ہوئے بڑے حملوں میں سے ایک ہے، جس میں 574 ڈرون اور 40 میزائلیں داغی گئی ہیں۔ افسران کے مطابق ان حملوں میں کم از کم ایک شخص کی موت ہو گئی ہے، جبکہ 15 دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ حملہ ایک امریکی کمپنی پر ہوا ہے۔ تازہ حملہ کے بعد یوکرین کے صدر زیلینسکی نے کہا کہ ماسکو سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے کہ وہ جنگ ختم کرنے کے لیے تیار ہیں اور ان کے درمیان سنجیدہ بات چیت چل رہی ہے۔

دراصل الاسکا سے لے کر واشنگٹن تک روس-یوکرین کے درمیان تقریباً 4 سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کی کوششیں چل رہی ہیں۔ حالانکہ دونوں ہی ممالک میں سے کوئی بھی اب تک پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آ رہا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے حال ہی میں روسی صدر ولادمیر پوتن سے الاسکا میں ملاقات کی تھی، جو ایک طرح سے بے نتیجہ ہی رہی۔ اس کے بعد یوکرینی صدر زیلینسکی نے بھی یوروپی لیڈران کے ساتھ واشنگٹن میں ٹرمپ سے ملاقات کی، تاکہ جنگ روکنے کی کوششیں ختم نہ ہوں۔ اس کے باوجود اب تک کوئی ٹھوس نتیجہ نکلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اب روس کے ذریعہ یوکرینی علاقہ میں تقریباً 600 ڈرون اور 40 میزائل سے حملے نے حالات کو مزید تشویش ناک بنا دیا ہے۔


تازہ حملہ کے بعد یوکرینی صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے زیلینسکی نے کہا کہ امریکی کمپنی پر ہوئے اس روسی حملے میں 15 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یوکرینی وزیر خارجہ اینڈری سائبہا کا بیان بھی اس حملہ کے بعد سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ روس نے مغربی یوکرین میں ایک اہم امریکی الیکٹرانکس مینوفیکچر پر حملہ کیا ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ یوکرین کے مغربی حصے ملک کے مشرق اور جنوب میں جنگی علاقہ کے فرنٹ لائن سے بہت دور ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ یوکرین کے مغربی حمایت کنندگان کی طرف سے دی جانے والی بیشتر فوجی امداد وہیں پہنچائی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ روس نے مغربی یوکرین کو ہدف بنایا ہے۔

بہرحال، آفیشیل اعداد و شمار کے مطابق ڈرونوں کی تعداد کی بنیاد پر یہ رواں سال روس کا تیسرا سب سے بڑا ہوائی حملہ ہے۔ میزائلوں کی تعداد کی بنیاد پر اس حملے کو رواں سال آٹھواں سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جہاں تک جنگ بندی کی کوششوں کا سوال ہے، زیلینسکی نے کہا ہے کہ وہ پوتن سے ملاقات یوروپ کے کسی نیوٹرل (غیر جانبدار) علاقہ میں پوتن سے ملنا چاہتے ہیں۔ ان میں سوئٹزرلینڈ، آسٹریا اور ترکی جیسے ملک شامل ہو سکتے ہیں۔ ہنگری کی طرف سے یوکرین کی حمایت کرنے کی مخالفت کا حوالہ دیتے ہوئے بڈاپوسٹ میں میٹنگ کی تجویز رد کر دی گئی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔