حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی شام میں بدامنی کا ماحول، تازہ فرقہ وارانہ تصادم میں 37 سے زائد افراد جاں بحق

شام میں دروز آبادی تقریباً 7 لاکھ ہے، جس میں سویدا شہر اس برادری کا سب سے بڑا شہر ہے۔ سویدا میں بدو اور دروز گروپ کے درمیان طویل عرصہ سے تنازعہ جاری ہے اور کبھی کبھی تشدد پھوٹ پڑتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>شام کے صدر احمد الشرع / تصویر بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ</p></div>

شام کے صدر احمد الشرع / تصویر بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ

user

قومی آواز بیورو

شام میں حکومت کی تبدیلی کو 9 ماہ گزر گئے ہیں لیکن اب تک وہاں مکمل طور پر امن قائم نہیں ہوا ہے۔ ایک طرف جہاں کُرد جنگجوؤں نے احمد الشرع کی عبوری حکومت سے معاہدہ کرنے کے بعد ہتھیار ڈال دیا ہے، وہیں دروز برادری کے لوگ آج بھی اپنے ہتھیار نہیں چھوڑے ہیں۔ خبروں کے مطابق پیر (14 جولائی) کو دروز اکثریتی شہر سویدا میں ہوئے فرقہ وارانہ تصادم میں 37 سے زائد افراد جاں بحق اور تقریباً 100 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ خونی تصادم دروز اور بدو قبائل کے درمیان پیش آیا۔

برطانیہ میں واقع سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) نے بتایا کہ شام کی وزارت دفاع نے علاقہ میں بڑی تعداد میں اضافی فورسز تعینات کی ہے۔ ٹی وی چینل ’المیادین‘ نے چشم دیدوں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اغوا کے واقعات سے متعلق ایک سلسلہ کے بعد یہ خونی تصادم شروع  ہوا تھا، جس میں 11 جولائی کو دمشق کو سویدا سے جوڑنے والے شاہراہ پر ایک دروز تاجر کا اغوا بھی شامل تھا۔ سویدا میں دروز طبقہ کے چیف رجال الکرامہ نے کہا کہ گورنریٹ میں کمی کے لیے براہ راست شامی حکومت ذمہ دار ہے۔ ساتھ ہی دروز طبقہ نے وارننگ دی ہے کہ موجودہ بدامنی ’شہری امن‘ کے لیے خطرہ ہے اور انتشار کا راستہ کھول رہی ہے۔


قابل ذکر ہے کہ شام میں دروز آبادی تقریباً 7 لاکھ ہے، جس میں سویدا شہر اس طبقہ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ سویدا میں بدو اور دروز گروپ کے درمیان طویل عرصہ سے تنازعہ جاری ہے، جس میں کبھی کبھی تشدد پھوٹ پڑتا ہے۔ دروز ایک چھوٹی منفرد مذہبی برادری ہے جو بنیادی طور پر شام، لبنان، اسرائیل اور اردن میں پائی جاتی ہے۔ یہ برادری 10ویں صدی میں اسماعیلی شیعہ اسلام کے ایک ذیلی طبقہ کے طور پر ابھرا ہے، لیکن اس نے اپنی الگ شناخت قائم کر لی۔ دروز اپنے خفیہ اور روحانی مذہب کے لیے جانی جاتی ہے، جو تناسخ اور توحید پر یقین رکھتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔