غزہ میں انسانی بحران اور عالمی خاموشی، 6 لاکھ 80 ہزار اموات!...اشوک سوین

غزہ میں حقیقی انسانی نقصان 680000 سے تجاوز کر گیا، عرب رہنما صرف بیانات تک محدود، عالمی طاقتیں خاموش، اس ظلم نے عالمی تزویراتی دکھاوے کی سیاست کو بے نقاب کر دیا ہے

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>
i
user

اشوک سوین

دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ جنگ کے دو سال کے دوران غزہ میں تقریباً 65 ہزار فلسطینی جان بحق ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار غزہ کے محکمہ صحت کے ہیں، جس کے پاس ہسپتالوں اور مردہ گھروں میں لائی گئی لاشوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ ہزاروں مرد، خواتین اور بچوں پر مشتمل اس تعداد نے عالمی برادری کو ہلا کر رکھ دیا۔ تاہم دو آسٹریلوی محققین کی تازہ رپورٹ ’غزہ کے مردہ شمار کرنے کی تلخ سیاست‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ 25 اپریل 2025 تک اصل ہلاکتیں تقریباً 6 لاکھ 80 ہزار تھیں۔ یہ تعداد محکمہ صحت کے اعداد و شمار کی 10 گنا زیادہ ہے اور غزہ کی جنگ سے پہلے کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ محض دو سال کے اندر ختم ہو گیا۔ جان بحق ہونے والوں میں سے تقریباً 3 لاکھ 80 ہزار بچے تھے۔ جی ہاں، آپ نے صحیح پڑھا!

یہ انکشاف عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا تھا۔ اس کے بعد ’غیر متناسب ردعمل‘ پر بحث ختم ہو جانی چاہیے تھی اور کثیرالجہتی سفارتی عمل میں ٹال مٹول کا خاتمہ ہونا چاہیے تھا تاکہ دنیا کارروائی پر مجبور ہو جاتی لیکن ہوا کیا؟ مکمل خاموشی، لاپروائی اور بس کندھے اچکانا۔ غزہ کے محکمہ صحت کے اعداد و شمار عام طور پر معتبر مگر ’اعتدال پسند‘ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی فہرست میں صرف تصدیق شدہ لاشیں شامل ہیں؛ ملبے کے نیچے دبے ہزاروں افراد، بھوک یا دوا کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہونے والے لوگ اس میں شامل نہیں ہیں۔

ماہر وبائیات نے عراق، افغانستان اور کانگو میں عام طور پر ہونے والی اموات کے تناسب کا استعمال کرتے ہوئے، معیاری تنازعہ ہلاکت کی تکنیک اپنائی ہیں۔ سب سے اعتدال پسند اندازوں کے مطابق بھی ہلاکتوں کی تعداد پانچ لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔

اعداد و شمار میں اضافے کے ساتھ ہی عرب رہنماؤں نے ’یکجہتی‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔ 9 ستمبر کو دوحہ میں اسرائیلی طیاروں نے حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا، خلیجی ممالک نے مذمت کے بیانات دیے، ہنگامی سربراہی اجلاس بلائے اور سخت بیانات دیے۔ قطر نے اپنی خودمختاری کے دعوے دہرائے؛ سعودی عرب نے اس اقدام کی مذمت کی؛ متحدہ عرب امارات نے حملوں کو دھوکہ دہی قرار دیا لیکن یہ سب محض زبانی بیانات تک محدود رہا، نہ کسی پابندی کا اطلاق ہوا، نہ کسی قسم کی روک تھام اور نہ ہی کسی تعلق پر اثر پڑا۔ حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ اگر اسرائیل کسی امریکی اتحادی کی دارالحکومت پر بلا جھجک حملہ کر سکتا ہے اور پھر بھی عرب حکومتوں کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل نہیں دیکھتا، تو فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے بیانات کا اصل مطلب کیا رہ جاتا ہے؟


اسرائیل نے نہ صرف کھلے عام حملہ کیا بلکہ اپنی جارحانہ طاقت پر فخر بھی کیا۔ نیتن یاہو امریکی وزیر خارجہ کی موجودگی میں اعلان کرتے نظر آئے کہ حماس کے رہنما کسی بھی جگہ محفوظ نہیں ہیں۔ یہ کوئی چھپی ہوئی جنگ نہیں تھی، بلکہ ایک عوامی تماشہ تھا۔ اسرائیل نے اس علاقے پر حملہ کیا، جہاں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ واقع ہے، جس سے امریکی یقین دہانیوں کی کمزوری بھی ظاہر ہوئی۔ اس نے عرب رہنماؤں کو واضح طور پر بتا دیا کہ ان کی خودمختاری کا کوئی مطلب نہیں۔ اسرائیل کسی پر بھی، کہیں بھی حملہ کرے گا، اور عرب حکومتیں ایسا کچھ نہیں کریں گی جو اس کے اقدامات پر اثر ڈال سکے۔

نیتن یاہو دراصل ایک نئے اصول کا اعلان کر رہے تھے، جس کے تحت اسرائیل خود کے دفاع کے نام پر کسی بھی ملک پر کسی بھی وقت بمباری کر سکتا ہے۔

اسی دوران، واشنگٹن کے کئی قریبی اتحادی، جیسے فرانس، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور بیلجیئم، اقوام متحدہ کی عام اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جبکہ یورپی یونین نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کم کرنے اور بعض سینئر اسرائیلی حکام پر پابندی عائد کرنے کے ارادے کا اظہار کیا ہے۔

یہ منظوری زیادہ تر علامتی نوعیت کی ہیں۔ یہ اسرائیل کی اخلاقی جوازیت کے زوال کو بے نقاب کر سکتی ہیں مگر اسرائیل کو اپنا راستہ بدلنے پر مجبور نہیں کرتیں۔ اس کے برعکس، نیتن یاہو اپنی کارروائیاں تیز کر رہے ہیں: مغربی کنارے پر قبضہ بڑھ رہا ہے اور غزہ کی ہلاکتیں جاری ہیں۔

یہ تین نکات—غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد، عرب یکجہتی کے بیانات اور نیتن یاہو کا لامحدود حملے کا دعویٰ—ایک خوفناک حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ غزہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں ہے، یہ ’قواعد پر مبنی نظام‘، بین الاقوامی قانون اور عالمی معاہدوں کے زوال کی بھی نشانی ہے۔


عالمی رہنما اب بھی بیانات جاری کر رہے ہیں، پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں اور ’صبر‘ کی اپیلیں کر رہے ہیں، گویا یہ کوئی معمولی جھڑپ ہے۔ درحقیقت، غزہ میں انسانی زندگی برباد ہو رہی ہے، اس حد تک کہ دیگر علاقوں میں جاری مظالم، جن کی مذمت وہی رہنما کرتے ہیں، ان کے سامنے معمولی محسوس ہوتے ہیں۔ اب تک یہ حکومتیں اور ان کے رہنما محض فلسطینی ریاست کی ’علامتی شناخت‘ کا دکھاوا کر چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فلسطینی ریاست کو تزویراتی طور پر تسلیم کرنے کا کیا مطلب جب روزانہ فلسطینیوں پر بمباری ہو رہی ہے اور ان کا وجود مٹایا جا رہا ہے؟

غزہ کے قتل عام نے عالمی سفارتکاری کے دکھاوا کو بے نقاب کر دیا ہے۔ تاریخ یاد رکھے گی کہ جب فلسطینیوں کا صفایا ہو رہا تھا، سب سے طاقتور ممالک اور عالمی رہنما خاموش رہے، مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل عام کو دیکھتے رہے، گویا وہ کوئی خوفناک فلم دیکھ رہے ہوں۔

(مضمون نگار اشوک سوین، سویڈن کی اوپسالا یونیورسٹی میں امن اور تنازعہ کی تحقیق کے پروفیسر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔