نمیشا پریا کی پھانسی مؤخر، مگر مقتول کے اہل خانہ کا دو ٹوک اعلان، ’خون نہیں بکتا، صرف قصاص منظور‘

نمیشا پریا کی پھانسی تو فی الحال ملتوی ہو گئی ہے مگر مقتول طلال مہدی کے بھائی نے کہا کہ ’دباؤ یا مالی پیشکش سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ہمیں صرف انصاف یعنی قصاص قبول ہے‘

<div class="paragraphs"><p>نمیشا پریہ۔ تصویر ’انسٹاگرام’</p></div>

نمیشا پریہ۔ تصویر ’انسٹاگرام’

user

قومی آواز بیورو

یمن میں سزائے موت کا سامنا کر رہی ہندوستانی نرس نمیشا پریا کی پھانسی تو وقتی طور پر ٹل گئی ہے لیکن اس کے خلاف اٹھنے والی عالمی انسانی آواز اور سفارتی کوششوں کے باوجود مقتول کے اہل خانہ کا مؤقف سخت اور غیر لچکدار نظر آ رہا ہے۔

نئی دہلی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق، 16 جولائی کو طے شدہ پھانسی کو یمنی حکام نے ملتوی کر دیا ہے۔ ہندوستان نے حالیہ دنوں میں سفارتی سطح پر کافی سرگرمی دکھائی، تاکہ نمیشا کے اہل خانہ کو کچھ وقت ملے اور وہ مقتول طلال عبدو مہدی کے خاندان کے ساتھ ’خون بہا‘ یعنی دیۃ پر کوئی قابل قبول معاہدہ کر سکیں۔ کیرالہ کے عالم دین ابوبکر مسلیار بھی ثالثی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ تاہم، ان کوششوں کو مقتول کے اہل خانہ کی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔

دی ہندو پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق، طلال کے بھائی عبدالفتح مہدی نے ایک فیس بک پوسٹ میں صاف طور پر کہا ہے کہ ان کا خاندان کسی مالی سمجھوتے یا رحم کی اپیل پر آمادہ نہیں۔ انہوں نے عربی زبان میں لکھا، ’’جو کچھ ہم آج سنتے ہیں، وہ ہمارے لیے نیا یا حیران کن نہیں۔ برسوں سے صلح کی خفیہ کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن دباؤ یا اپیل سے ہمارا مؤقف نہیں بدلا۔ ہمارا مطالبہ صرف قصاص ہے اور ہم اسی پر قائم ہیں۔‘‘

عبدالفتح نے مزید کہا، ’’پھانسی کا التوا ہمارے لیے غیر متوقع تھا لیکن اس سے ہمارا حوصلہ کم نہیں ہوا۔ خون خریدا نہیں جا سکتا، سچ بھلایا نہیں جا سکتا اور قصاص ضرور ہوگا — چاہے جتنا وقت لگے۔‘‘


خیال رہے کہ نمیشا پریا، کیرالہ کے ضلع پالکّاڈ سے تعلق رکھنے والی ایک نرس ہیں، جنہیں یمن میں 2017 میں یمنی شہری طلال مہدی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مقدمے کی کارروائی کے بعد 2020 میں انہیں سزائے موت سنائی گئی، جسے یمن کی سپریم جوڈیشل کونسل نے نومبر 2023 میں برقرار رکھا۔

نمیشا فی الحال صنعا کی ایک جیل میں قید ہیں، جو ایران کی حمایت یافتہ حوثی فورسز کے زیر کنٹرول ہے۔ ہندوستان کی جانب سے ابتدائی ایام سے ہی اس معاملے میں تمام ممکنہ مدد کی جا رہی ہے۔ نمیشا کی والدہ پریم کماری بھی گزشتہ سال یمن گئیں تاکہ خون بہا کے ذریعے بیٹی کو بچایا جا سکے لیکن مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے۔

حکام ہند اب بھی یمنی جیل اتھارٹی اور پراسیکیوٹر کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ تاہم، مقتول کے اہل خانہ کی موجودہ سختی اس انسانی المیے کو اور پیچیدہ بنا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سفارتی اور مذہبی مداخلتیں مستقبل میں اہل خانہ کا دل نرم کر سکیں گی؟ فی الحال، زندگی اور موت کے درمیان معلق نمیشا کی تقدیر غیر یقینی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔