ندائے حق: افغانستان کا مستقبل...اسد مرزا

جس طرح طالبان افغانستان کے بڑے حصے پر دبدبہ قائم کرنے میں کامیاب رہے، امکان ہے کہ وہ جلد کابل پر بھی قابض ہو سکتے ہیں اور کسی جنگجو گروپے کے طور پر نہیں بلکہ بطور ایک سیاسی گروپ

ماسکو میں پریس کانفرنس کے دوران طالبان لیڈران سہیل شاہین، لطیف منصور اور شہاب الدین دلاور / Getty Images
ماسکو میں پریس کانفرنس کے دوران طالبان لیڈران سہیل شاہین، لطیف منصور اور شہاب الدین دلاور / Getty Images
user

اسد مرزا

امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ اپریل کے مہینے میں اعلان کیا تھا کہ امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا 11 ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ تاہم 8 جولائی کی اپنی حالیہ تقریر میں انھوں نے اس مدت کو اور کم کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اب امریکی فوجی 31 اگست تک مکمل طور پر افغانستان سے امریکہ واپس پہنچ جائیں گے۔ تاہم انھوں نے اس موقف کی تردید کی ہے کہ امریکہ افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے وہاں گیا تھا۔ ساتھ ہی انھوں نے مستقبل کی کسی حکومت میں طالبان کی شمولیت کو مسترد نہیں کیا ہے۔ ظاہری طور پر اس انخلا کا اثر صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ اس کے ہم سایہ ممالک اور خطے میں موجود دیگر ملکوں پر بھی ہونا لازمی تھا۔ امریکی انخلا کا سب سے زیادہ اثر پاکستان، ہندوستان، روس اور ایشیائی مسلم ملکوں اور چین پر مرتب ہونے کے امکان ہیں۔

بیس سالہ طویل اس امریکی دخل اندازی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 17500 افغان شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور اگر ہم اس میں بے گھر ہونے والے پناہ گزینوں اور ہجرت کرنے والے افراد، جوکہ سماجی اور معاشی مشکلات کے سبب جاں بحق ہوئے، کو بھی شامل کر لیں تو یہ تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ امریکہ نے افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے اپنے فوجی مشن پر تقریباً 143 کروڑ ڈالر اس بیس سال کے عرصے میں خرچ کیے۔ اگر ہم سماجی اور حکومتی سطح پر خرچ ہونے والی رقم کا جائزہ لیں تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ اس میں سے زیادہ تر پیسہ بدعنوان سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کی جیبیں بھرنے میں استعمال ہوا۔


ہم سایہ ملکوں کا ردِ عمل

مجموعی طور پر امریکی انخلا کا سب سے زیادہ اثر پاکستان پر مرتب ہو سکتا ہے۔ گزشتہ 35 سالوں کے درمیان افغان مزاحمت اور مجاہدین کی آماج گاہ زیادہ تر پاکستانی شہر رہے ہیں اور اس کے علاوہ پاکستانی حکام اور عوام دونوں نے ہی ہر طریقے سے افغان مجاہدین کی مدد کی ہے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے جون میں ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ اخبار کے لیے تحریر کیے گئے اپنے ایک مضمون میں صاف طور پر پاکستان میں امریکی فوجی اڈے قائم کرنے کو مسترد کرتے ہوئے مستقبل کے لیے پاکستانی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کی تعمیرِ نو میں ایک فعال کردار ادا کرے، ساتھ ہی ساتھ پاکستان-امریکہ تعلقات پر اظہارِ رائے کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات فوجی اشتراک کے بجائے معاشی اشتراک پر قائم ہوں، جیسے کہ امریکہ اور ہندوستان کے درمیان موجود ہیں۔ عمران خان کے مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب افغان طالبان اور مجاہدین کی فوجی مدد کرنے کی بجائے ان کے ساتھ معاشی و کاروباری تعلقات کو زیادہ اہمیت دیں گے۔ اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ اس طرح افغان معاملے میں پاکستانی فوج اور خاص طور پر ’آئی ایس آئی‘ کے کسی ممکنہ رول کے خلاف ہیں۔ ساتھ ہی جس لہجے میں انھوں نے امریکی رہنماؤں کو مخاطب کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کے بجائے چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

دوسری جانب افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک جیسے کہ تاجکستان، ازبکستان اور ترکمنستان نے اپنی سرحدوں پر فوجی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ چند ایک سرحدی چیک پائنٹس پر آمدورفت اور کاروبار بھی جاری ہے۔ تاہم ماحول پر ایک پراسرار خاموشی طاری ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبی اللہ مجاہد نے ان ملکوں کی تشویش کو کم کرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان سے ان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور ان کو اپنی حفاظت کے ضمن میں کوئی تشویش نہیں ہونی چاہیے۔ افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا ہے کہ اب تک تقریباً 2000 افغان فوجیوں کے ان ملکوں میں پناہ لینے کی رپورٹیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔


دراصل اس پورے قضیہ میں عالمی برادری اور دیگر ملکوں کو جس وجہ سے سب سے زیادہ تشویش ہے وہ ہے افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت۔ لیکن مستقبل کی کسی بھی قومی حکومت میں طالبان کی شمولیت کا راستہ تو فروری 2020 میں سابق امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے امن معاہدہ میں طالبان کو شامل کرنے سے ہی صاف ہو گیا تھا۔ اس کے بعد افغان حکومت اور طالبان نمائندوں کے درمیان دوحہ، قطر میں ہونے والے مذاکرات نے طالبان کے مستقبل میں ہونے والی کسی بھی بات چیت یا حکومت سازی میں ان کی شمولیت کے دروازے کھول دیے تھے۔

برطانیہ کا ردِ عمل

اس پورے معاملے میں برطانیہ کو جو خطرہ سب سے زیادہ لاحق ہے وہ ہے القاعدہ اور داعش کے افغانستان میں موجود رہنماؤں اور خفیہ ممبروں سے۔ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی-6 کے سابق سربراہ سرایلکس ہنگر کے مطابق افغانستان میں چھپے ہوئے ان لڑاکوں کے علاوہ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ کہیں آنے والے وقت میں طالبان اور ناٹو کی سرپرستی میں قائم افغان قومی حکومت کے درمیان جنگ نہ شروع ہو جائے۔ جون میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اندازہ ہے کہ تقریباً 5000 القاعدہ اور 200 داعش جنگجو ابھی بھی افغانستان میں موجود ہیں۔


برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل سرنک کارٹر جو کہ کئی مرتبہ افغانستان میں بھی تعینات رہ چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حال کے عرصے میں جس طریقے سے طالبان نمائندوں نے دوحہ مذاکرات میں شرکت کی ہے اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل کی کسی قومی حکومت میں شمولیت کی امید پر طالبان داعش اور القاعدہ سے اپنا تعلق ختم کرلیں اور یکسوئی سے افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے کوشاں ہوجائیں اور عالمی طور پر اپنی شبیہ کو اور زیادہ مثبت کرنے کے لیے وہ افغان شہریوں کے حق میں سیاسی طور پر متحرک ہونے کی کوشش کریں۔

ہندوستان کا ردِ عمل

تاریخی طور پر ہندوستان اور افغانستان کے درمیان ہمیشہ قریبی اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں ہی ہندوستان نے افغانستان میں 100 سے زائد بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو پورا کرنے کے لیے تقریباً 80ملین ڈالر کی مدد کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ ماضی میں بھی ہندوستان نے افغانستان میں مختلف پروجیکٹس پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں اور افغانی عوام کی ہر ممکنہ مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم ہندوستانی حکومت نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حال ہی میں طالبان سے بھی رجوع کیا ہے۔ اس کے اس قدم سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل کی قومی حکومت میں طالبان کی شمولیت کو ہندوستان بھی تسلیم کرتا ہے اور وہ نہیں چاہتا ہے کہمستقبل کی کسی افغان حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہوں ۔ حکومت کے اس قدم کو مثبت اور دانشمندانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ وہ اس اقدام کے ذریعے افغان سیاسی عمل میں شامل تنظیموں میں پاکستان اور چین کے اثر کو بھی کم کرنا چاہتا ہے۔


امریکی ردِ عمل

افغانستان جسے سلطنتوں کی قبر گاہ بھی قرار دیا جاتا ہے ، اس نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا ہے کہ کوئی بھی ملک افغانستان پر اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرسکتا ہے۔ دنیا کی دو سپر پاورس ایک کے بعد ایک افغانستان سے شرمندہ ہوکر واپس اپنے ملک لوٹ گئیں۔

اس کا ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ چند ہوشمند امریکی فوجی اور دفاعی ماہرین نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا وجہ ہے کہ طالبان امریکی دفاعی مشین کے سامنے ہار نہیں مانتے۔ امریکی محکمہ دفاع کے ایک اعلیٰ اہل کار اور جنرل ڈن فورڈ کے مشیر رہ چکے کارٹر مال کامیاں نے اپنی کتاب The American War in Afghanistan: A History میں تحریر کیا ہے کہ امریکی دفاعی ماہرین نے کبھی بھی طالبان کی نفسیات سمجھنے او رجاننے کی کوشش نہیں کی۔ان کے بقول غیر ملکی فوجیوں کے خلاف لڑائی میں طالبان نے اپنی ہر حکمت اسلامی بنیادوں پر قائم کی تھی جو کہ ایک عام افغانی کی نفسیات کو سیدھے متاثر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی قوم پرستی ہمیشہ کسی بھی دوسری قوم کے زیر اثر رہنے کے لیے کبھی بھی آمادہ نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ ایک آزاد انسان کے طو ر پر اپنی آزادی اور اپنے مذہب کی حفاظت کے لیے جنگ کرنے کے لیے ہمیشہ تیاررہتے ہیں۔ وہ کسی مالی یا سیاسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ اپنے اور اپنی قوم کا تشخص برقرار کرنے کے لیے کاربند رہتے ہیں اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ انھیں افغان عوام کی حمایت ہمیشہ حاصل رہی۔

اور یہی وجہ ہے کہ حال کے عرصے میں محض ایک مہینے کے دوران طالبان 162سے بھی زیادہ افغان اضلاع پر اپنا پرچم لہرانے میں کامیاب ہوئے اور اگر یہی حالات رہے تو وہ دن دور نہیں جب طالبان کابل پر بھی قبضہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس صورت حال میں طالبان کو مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ مغربی دنیا کو طالبان کے اصولوں کو اپنانا لازم ہوجائے گا۔

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز، دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔