یورپ کی انتہائی مطلوب مجرم خواتین، گرفتاری کے لئے مہم چلانے کا فیصلہ

یورپی پولیس نے انتہائی مطلوب مجرم خواتین کے خلاف ایک نئی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ خواتین قتل، منشیات، انسانوں کی اسمگلنگ اور بچوں کے استحصال جیسے جرائم میں ملوث ہیں

یورپ کی انتہائی مطلوب مجرم خواتین
یورپ کی انتہائی مطلوب مجرم خواتین
user

ڈی. ڈبلیو

یورپی پولیس نے جمعہ اٹھارہ اکتوبر کو ایسی مجرم خواتین کے ناموں کا اعلان کیا ہے، جو مختلف یورپی ممالک میں سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے باعث انتہائی مطلوب ہیں۔ ان جرائم پیشہ خواتین کو گرفتار کرنے کی ایک نئی مہم شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

یورپی پولیس نے اس مہم کا نام تجویز کیا ہے "Crime Has No Gender" بعنی جرم کی کوئی جنس نہیں ہوتی۔ یورپی یونین نے ایسے اکیس انتہائی مطوب مجرموں کی فہرست جاری کی ہے جو مختلف یورپی یونین کی رکن ریاستوں کو مطلوب ہیں۔ اس فہرست میں اٹھارہ خواتین شامل ہیں۔ یہ تمام مجرم کئی سنگین جرائم کا ارتکاب کر چکے ہیں۔


یوروپول کی جاری کردہ خطرناک مجرموں کی فہرست میں ایک مجرمہ کروشیا کی زورکا روجچ ہیں، وہ منشیات اور انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ ایک اور خاتون کا تعلق نائجیریا سے ہے اور اس کا نام جیسیکا ایڈسوموان ہے۔ اس خاتون نے ساٹھ خواتین کو اسمگل کر کے فرانس پہنچایا اور انہیں جبری جسم فروشی پر مجبور بھی کیا۔

اس طرح ایک پولستانی مجرمہ بھی مفرور ہے، اس کا نام دوروتا کازمیرسکا ہے۔ یہ سن 2008 میں ہونے والی قتل کی واردات میں شریک تھی اور عدالت نے اسے پچیس برس قید کی سزا سنائی تھی۔ کازمیرسکا اپنی سزا کے شروع ہونے سے قبل ہی مفرور ہو گئی تھی۔


یوروپول کی خاتون ترجمان ٹینی ہولیوؤٹ کا کہنا ہے کہ یہ تاثر عام ہے کہ خواتین سنگین جرائم میں ملوث نہیں ہوتیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو فہرست جاری کی گئی ہے، اُن میں سنگین جرائم میں ملوث خواتین بھی ہیں اور اُن جرائم کی شدت بھی مردوں کے مقابلے کی ہے۔ یوروپول کی ویب سائٹ پر ان انتہائی مطوب مجرموں کی تفصیل جاری کر دی گئی ہے۔ اس تفصیل کے ساتھ اُن کی تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں۔

یوروپول نے ان مجرموں کے بارے میں تفصیل فراہم کرنے والے کی شناخت کو مخفی رکھنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ کوئی اطلاع ویب سائٹ پر بھی بغیر کسی شناخت کے لکھی جا سکتی ہے یا متعلقہ تفتیش کار کو مطلع کیا جا سکتا ہے تا کہ مفرور مجرم کے خلاف بروقت کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔


یوروپول نے اس تناظر میں واضح کیا ہے کہ مختلف ریسرچ کے ذریعے محققین نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ جنس کی تفریق کے بغیر کوئی (مرد یا عورت) کسی بھی نوعیت کے جرم میں ملوث ہو سکتا یا سکتی ہے۔ یوروپول کے مطابق ایسے تمام تحقیقی جائزوں میں متاثرہ فرد کی جنس پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ایسا تاثر بھی ہے کہ خواتین سنگین جرائم میں ملوث نہیں ہو سکتیں، لیکن یہ بات غلط ہے اور حالیہ برسوں میں خواتین کے منظم جرائم میں ملوث ہونے کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔