نیپال میں فیس بک، انسٹاگرام اور ایکس پر پابندی، رجسٹریشن نہ کرانے پر حکومت کا فیصلہ

نیپال نے فیس بک، انسٹاگرام، ایکس اور یوٹیوب سمیت بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر رجسٹریشن نہ کرانے پر پابندی عائد کر دی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ رجسٹریشن کے بعد ہی یہ سروسز دوبارہ بحال ہوں گی

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا / Getty Images</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

کھٹمنڈو: نیپال حکومت نے جمعرات کی نصف شب سے فیس بک، انسٹاگرام، ایکس (ٹوئٹر)، یوٹیوب اور لنکڈ اِن سمیت 26 بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ فیصلہ وزارتِ مواصلات و اطلاعات ٹیکنالوجی کی ہدایت پر لیا گیا، جس کے تحت تمام کمپنیوں کو ملک میں باقاعدہ رجسٹریشن کرانا لازمی قرار دیا گیا تھا۔

وزارت کے مطابق، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو 28 اگست سے سات روز کی مہلت دی گئی تھی تاکہ وہ خود کو نیپال میں رجسٹر کرائیں اور مقامی قوانین کی تعمیل کریں۔ بدھ کی رات یہ مدت ختم ہو گئی، لیکن میٹا (فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ کی پیرنٹ کمپنی)، یوٹیوب کی مالک الفابیٹ، ایکس، ریڈٹ اور لنکڈ اِن جیسی بڑی کمپنیوں نے درخواست جمع نہیں کرائی۔ اس کے بعد حکومت نے فوری طور پر ان پلیٹ فارمز پر پابندی نافذ کر دی۔

سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ "نیپال کے اندر یا باہر سے چلنے والے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو متعلقہ حکام کے پاس فہرست میں شامل ہونا لازمی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی شرط ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر موجود مواد کا جائزہ اور نگرانی کریں تاکہ غیر ضروری اور غیر قانونی مواد کی روک تھام ہو سکے۔"

نیپال ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو حکم دیا گیا ہے کہ جن کمپنیوں نے رجسٹریشن نہیں کرائی، ان کی سروسز ملک میں معطل کر دی جائیں۔ حکام نے مزید وضاحت کی کہ جیسے ہی کوئی کمپنی رجسٹریشن مکمل کرے گی، اس کی سروسز اسی دن بحال کر دی جائیں گی۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ چند پلیٹ فارمز نے پہلے ہی رجسٹریشن کرالی ہے۔ ان میں ٹک ٹاک، وی ٹاک، وائبر اور نِبنج شامل ہیں۔ وزارت کا کہنا ہے کہ ٹیلگرام اور گلوبل ڈائری جیسے پلیٹ فارمز رجسٹریشن کے عمل میں ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ استعمال ہونے والے بڑے پلیٹ فارمز نے اب تک کوئی باضابطہ قدم نہیں اٹھایا۔

اس فیصلے پر عوامی ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ کچھ صارفین نے بی بی سی نیپالی سے گفتگو میں کہا کہ یہ اقدام آزادیٔ اظہار پر قدغن ہے اور حکومت سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کی آواز دبانا چاہتی ہے۔

دوسری طرف کچھ شہریوں نے حکومت کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی کمپنیوں کو بھی نیپال کے قوانین کا احترام کرنا چاہیے، کیونکہ اگر مقامی میڈیا ادارے ان ضوابط پر عمل کرتے ہیں تو عالمی کمپنیوں کو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ پابندی نیپال جیسے ملک میں سوشل میڈیا کے استعمال پر گہرے اثرات ڈالے گی۔ فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب نہ صرف تفریح کے بڑے ذرائع ہیں بلکہ کاروبار، تعلیم اور رابطے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ پابندی کے بعد لاکھوں صارفین متاثر ہوئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔