ترکی: ناکام بغاوت کے الزام میں گرفتار 46 لوگوں کی جیلوں میں پُراسرار ’خود کشی‘!

ترکی کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ’پیپلز ڈیموکریٹک‘ کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں‌ انکشاف کیا گیا ہے کہ بغاوت میں ملوث ہونے کے شبے میں گرفتار کیے گئے 46 افراد دوران حراست موت سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ترکی کے سیاسی گلیاروں میں ایک نئی خبر گشت کر رہی ہے جس کا آنے والے دنوں میں ترکی سیاست پر سیدھا اثر پڑنے والا ہے۔ تُرکی میں‌ 15 جولائی 2016ء کو حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد اس میں ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتار 46 لوگوں کی پراسرار خود کشی کی خبروں نے تشویش کی ایک نئی لہر دوڑا دی ہے۔ اپوزیشن نے قیدیوں کی خود کشی کے واقعات کو مشکوک قرار دیا ہے۔

ترکی کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ’پیپلز ڈیموکریٹک‘ کی طرف سے ناکام بغاوت کی تیسری سالگرہ پر جاری ایک رپورٹ میں‌ انکشاف کیا ہے کہ بغاوت میں ملوث ہونے کے شبے میں گرفتار کیے گئے 46 افراد دوران حراست موت سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کی اموات کو خود کشی کا نتیجہ قرا ردیا گیا ہے۔


خیال رہے کہ ترک حکومت سنہ 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کا الزام جلا وطن لیڈر فتح اللہ گولن اور ان کی جماعت پرعائد کرتی ہے۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے نائب صدر ولی اغابابا کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں‌ بغاوت کے الزام میں گرفتار افراد کی خود کشی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خیال رہے کہ ترکی میں تین سال پیشتر بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد حکومت نے ملک گیر کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔ بڑے بڑے ذرائع ابلاغ کا گلا گھونٹ دیا گیا اور ملک میں جملہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جانے لگیں۔


ترک حکام کا جیلوں‌ میں قیدیوں کی موت کو خود کشی قرار دینا کئی طرح کے شکوک وشبہات کو جنم دے رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے قیدیوں پرتشدد اور ان کے غیرانسانی سلوک کی رپورٹس کے بعد قیدیوں کی اموات میں اضافہ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انقرہ حکام زیر حراست افراد کے حوالے سے دنیا کے سامنے غلط بیانی کر رہے ہیں۔ قیدیوں کی خود کشی کے نتیجے میں موت کی باتیں مشکوک ہیں۔

خیال رہے کہ تین سال قبل ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ملک گیر کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔ 80 ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا جب کہ 4 لاکھ افراد کو تفتیش کے عمل سے گزرنا پڑا۔ ایک لاکھ 75 ہزار سرکاری ملازمین کو برطرف کردیا گیا۔ ڈیڑھ سو ابلاغی ادارے بند کردیئے گئے، اندرون اور بیرون ملک ہزاروں ترک تعلیمی ادارے بند کیئ گئے اور دسیوں صحافیوں کو حراست میں لیا گیا۔


انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور ترک اپوزیشن صدرطیب ایردوگان پر الزام عائد کرتی ہیں کہ بغاوت کی آڑ میں انہوں‌ نے اپوزیشن کو طاقت سے کچلنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔

بشکریہ، العربیہ ڈاٹ نیٹ

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Jul 2019, 6:10 PM