جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پہلے کون جھکے گا!...سید خرم رضا

اب یہ دیکھنا ہے کہ یوکرین جو مغرب کی طاقت پر انحصار کر رہا ہے وہ کتنے دن تک روسی فوجی اور ٹینکوں کے حملہ جھیل سکتا ہے اور روس کب تک اقتصادی پابندیوں کا درد براداشت کر سکتا ہے!

روس کا یوکرین پر حملہ / Getty Images
روس کا یوکرین پر حملہ / Getty Images
user

سید خرم رضا

روس اور یوکرین کی جاری جنگ کے تعلق سے ایک وہاٹس ایپ پیغام دیکھا، جس میں کورونا وائرس کی تصویر کے ساتھ تحریر تھا کہ ’انسان بھی عجیب مخلوق ہے، اس نے اربوں روپے وائرس کو ختم کرنے کے لئے خرچ کئے تاکہ انسانوں کی جان بچائی جا سکے لیکن اب ایک دوسرے کی جان لینے کے لئے تیار ہیں۔‘ حقیقت یہی ہے کہ انسان عجیب مخلوق۔ جنگ کا آج دوسرا دن ہے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ پہلے ہی دن روسی حملوں میں سینکڑوں لوگ مر چکے ہیں اور ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے لوگ اور مارے جائیں گے۔ خاص بات یہ ہے کہ دنیا کی ایک بڑی آبادی کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ جنگ کس بات کے لئے لڑی جا رہی ہے اور دنیا کیوں خود روس کی ایک بڑی آبادی اس حقیقت سے نا آشنا ہے! روسی صدر پوتن نے یوکرین پر حملہ کے لئے بس اپنے ایوان کے ارکان سے منظوری لی اور حملہ کر دیا جبکہ وہ خود یہ کہتے رہے تھے کہ وہ اپنے پڑوسی پر حملہ نہیں کریں گے۔

روس نے چار کروڑ چالیس لاکھ کی آبادی والے اپنے پڑوسی ملک یوکرین پر ہوائی، زمینی اور سمندری راستوں سے تباہ کن حملے کر دئے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کر دینی ضروری ہے کہ یوکرین اور روس دونوں پہلے ’یو ایس ایس آر‘ یعنی سوویت یونین کا اس وقت حصہ تھے جب دنیا دو طاقتوں کے درمیان تقسیم تھی، جس میں ایک طاقت کی نمائندگی یو ایس ایس آر کیا کرتا تھا اور دوسرے کی نمائندگی امریکہ یعنی یو ایس اے کیا کرتا تھا۔ یو ایس ایس آر ختم ہو گیا اور اس میں جو ریاستیں تھیں وہ سب الگ الگ آزاد ہو گئیں، جن میں ازبکستان، جارجیا، یوکرین، کرغزستان، تاجکستان جیسی کئی ریاستیں شامل تھیں۔


یوکرین کیونکہ یوروپ کا حصہ تھا اس لئے یو ایس ایس آر سے آزادی کے بعد وہ یوروپ کا ملک بن گیا اور دھیرے دھیرے طاقت ور ہونا شروع ہو گیا۔ روس نے پہلے سال 2008 میں جارجیا پر حملہ کیا اور اس کے دو حصے کر دئے پھر سال 2014 میں حملہ کر کے یوکرین سے کریمیا کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اب حملوں سے پہلے روس نے یوکرین کی دو ریاستوں کو خو مختار قرار دے دیا۔ اس سارے معاملے میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کا کہنا یہ ہے کہ ’روس کے دفاع کے لئے پیچھے ہٹنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘ دراصل یوکرین کی خواہش ہے کہ وہ نیٹو یعنی شمالی اقیانوس کی معاہدہ تنظیم کا حصہ بن جائے، جو روسی صدر نہیں چاہتے کیونکہ ان کا یہ ماننا ہے کہ یوکرین بنیادی طور پر یو ایس ایس آر کا حصہ ہے اور روس اور یوکرین ایک قوم ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوکرین کو جدید کمیونسٹ روس نے ہی بنایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ روس کو یہ خدشہ ہے کہ یوکرین نیٹو میں شامل ہونے کے بعد مزید طاقتور ہو جائے گا۔

یہاں دو باتیں ذہن میں ضرور رکھنی ہوں گی کہ روس کی اکثریت ویسے تو ایتھسٹ یعنی ملحدوں کی ہے لیکن ایک بڑی تعداد وہاں پر عیسائیوں کی ہے جبکہ یہودیوں کی تعداد بہت کم ہے اور مسلمان تو صرف ایک فیصد ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یوکرین میں موجودہ صدر سے پہلے جو یوکرین کے صدر تھے وہ روس کے حامی تھے لیکن ان کے خلاف عوامی ناراضگی کی وجہ سے ان کو انتخابات میں شکست ہو گئی تھی اور ولادیمیر زیلنسکی صدر منتخب ہو گئے تھے، جس کو لے کر پوتن سخت نالاں ہیں۔ پوتن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ یوکرین کو نازیوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں جبکہ زیلنسکی تو خود یہودی ہیں اور وہ نازیوں کے سخت خلاف ہیں۔


مغرب اور روس دونوں یوکرین پر اپنا اثر رکھنا اور بڑھانا چاہتے ہیں اور وہاں کے عوام ان طاقتوں کی رسہ کشی کا شکار ہیں۔ روس نے جہاں اپنے ٹینک اور فوجی میدان جنگ میں اتار دئے ہیں وہیں مغرب نے روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی جھڑی لگا دی ہے اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ آج ٹینکوں اور فوجیوں سے زیادہ طاقتور اقتصادیات ہو گئی ہے۔ ابھی تو جنگ بندی کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ یوکرین جو مغرب کی طاقت پر انحصار کر رہا ہے وہ کتنے دن تک روسی فوجی اور ٹینکوں کے حملہ جھیل سکتا ہے اور روس کب تک اقتصادی پابندیوں کا درد براداشت کر سکتا ہے، کیونکہ اگر اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے روسی عوام میں ناراضگی پھیل گئی تو پوتن کے لئے دو محاذوں میں جنگ لڑنا مشکل ہو جائے گا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پہلے کون جھکے گا لیکن یہ جتنی جلدی ہو جائے بہتر ہے کیونکہ ساحر لدھیانوی نے کہا ہے کہ ’جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے۔‘

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسلِ آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں

امنِ عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر

روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے

زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں کہ پچھے ہٹیں

کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لئے اے شریف انسانو

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

ساحرؔ لدھیانوی

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔