امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قتل کے واقعات میں نمایاں اضافہ

90 کی دہائی میں امریکی دارلحکومت واشنگٹن ’مرڈرکیپٹل‘ کہلانے لگا تھا اور آج ایک بار پھر اس شہر میں جرائم کی شرح تشویش ناک حدوں کو چھوتی نظر آ رہی ہے۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

قومی آوازبیورو

وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق اس سال کے ابتدائی پانچ ماہ کے جرائم کے ریکاڑد سے اندازہ ہوتا ہے کہ واشنگٹن 90 کی د ہائی والا ’مرڈر کیپیٹل‘ میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ پانچ مہینوں میں واشنگٹن میڑو پولیٹن ایریا میں قتل کی 115 وارداتیں ریکارڈ کی جا چکی ہیں، جن میں سے ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی حدود میں سب سے زیادہ یعنی 64 اور سب سے کم قتل یعنی 13 ورجینیا کے میٹرو پولٹن ایریا میں ہوئے۔

واضح رہے قتل ہونے والوں میں سے بیشتر کی عمریں 20 سے 30 برس کے درمیان تھیں۔ گویا تشدد کی اس لہر کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والے نوجوان تھے۔ پولس اور محکمہ انصاف کے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق واشنگٹن کی آبادی تقریباً 20 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ 1991 میں جب شہر میں جرائم کی شرح بلندیوں کو چھو رہی تھی تو اس وقت سال بھر کے دوران 482 افراد قتل ہوئے تھے، یعنی ہر ایک لاکھ افراد میں سے تقریباً 81 لوگ قتل کر دیئے گئے تھے، جس کے بعد امریکہ کے اس مرکزی شہر کو’مرڈر کیپٹل‘ کے نام سے پکارا جانے لگا تھا۔


ریکارڈ کے مطابق 1950 میں واشنگن کی آبادی 8 لاکھ کے قریب تھی۔ جس کے بعد شہر میں نئے سرکاری و غیر سرکاری دفاتر قائم ہوئے اور دوسرے علاقوں سے لوگوں کی بڑے پیمانے پر آمد کے نتیجے میں نہ صرف آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا بلکہ شہر دو حصوں میں بٹ گیا۔ ان میں سے ایک حصے میں زیادہ تر رہائشی بلاک تھے اور وہاں آبادی کی اکثریت سیاہ فاموں کی تھی۔ جرائم کی شرح بھی اس حصے میں زیادہ تھی۔ تاہم جن علاقوں میں سرکاری دفاتر اور کاروباری مراکز قائم تھے وہاں جرائم کے واقعات نسبتاً کم تھے۔ ان دفاتر اور مراکز میں کام کرنے والے میٹرو پولیٹن علاقے ورجینیا اور میری لینڈ کی مضافاتی آبادیوں میں رہنے کو ترجیج دیتے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ واشنگٹن میں 90 کی دہائی میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہونا شروع ہوا اور 1996 میں یہ اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ اس کے بعد 2000 کے عشرے سے جرائم کی شرح میں بتدریج کمی آنے لگی۔ ایف بی آئی کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق 1991 میں’مرڈرکیپٹل‘ کے نام سے جانے جانے والے اس شہر میں 2012 میں قتل ہونے والوں کی تعداد گھٹ کر 92 رہ گئی تھی، جو 1963 کے بعد سے قتل کی کم ترین شرح تھی۔ اس کمی کا ایک اہم سبب حساس علاقوں میں پولس چوکیوں کا قیام تھا۔ اگرچہ پولس چوکیوں کا نظام اب بھی قائم ہے لیکن جرائم میں کمی آنے کے بعد ان کی تعداد گھٹا دی گئی جس سے جرائم ایک بار پھر بڑھ رہے ہیں۔


اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2017 تا 2018 کے دوران امریکہ بھر میں قتل کی وراداتوں میں نمایاں کمی ہوئی لیکن دوسری طرف واشنگٹن ڈی سی اور فلاڈیلفیا، دو ایسے شہر ہیں جہاں قتل کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ میڑو پولیٹن پولس کے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق 2018 میں واشنگٹن میڑو پولٹن ایریا میں قتل کی 160 وارداتیں ریکارڈ کی گئی تھیں، لیکن سال رواں کے پہلے ہی پانچ مہینوں میں اس شہر میں اب تک 115 افراد قتل کیے جا چکے ہیں جن میں ایک معروف پاکستانی اسکالر جاوید بھٹو کا قتل بھی شامل ہے، جنھیں ان کے گھر کے سامنے ان کے اپنے ہی ایک پڑوسی نے کسی اشتعال کے بغیر گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔

میڑو پولیٹن پولس چیف پیڑ نیوشام کے مطابق اس سال جنوری کا آخری ہفتہ بہت ہلاکت خیز ثابت ہوا جس میں ایک ہی واقعہ میں چار افراد قتل کر دیئے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ شہر میں دیگر جرائم میں بھی نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جرائم کی شرح میں اضافے کے پیش نظر پولس ڈسٹرک میں بعض تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس کے تحت جرائم سے متاثرہ علاقوں میں پولس کو اضافی وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں۔


واشنگٹن ڈی سی میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر حکام تشویش میں مبتلا ہیں۔ شہر کے میئر میورئل باوزر نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ آگے آئیں اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی، غیر قانونی اسلحہ رکھنے، جوا، منشیات کی فروخت اور بردہ فروشی کی فوری اطلاع دیں، اکثر اوقات قتل کی کڑیاں ان سے جا ملتی ہیں اور اب بھی قتل کے زیر تفتیش بہت سے معاملے ایسے ہیں جن کا ابھی تک کھوج نہیں لگایا جا سکا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔