کیا اب بنگلہ دیشی صدر کے تختہ پلٹ کی ہو رہی تیاری؟ کئی سفارتخانوں سے محمد شہاب الدین کی تصویر ہٹائی گئی
بی بی سی کی ایک خبر کے مطابق کچھ ممالک کے سفارتخانوں میں حکومت نے براہ راست فون کر صدر محمد شہاب الدین کی تصویر ہٹانے کو کہا، حالانکہ کچھ ممالک کے سفارتخانوں کو فی الحال کوئی ہدایت نہیں ملی ہے۔
بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے ایک ایسا حکم جاری کیا ہے، جس نے ملک میں وزیر اعظم کے بعد صدر کے تختہ پلٹ کی تیاریوں کا امکان ظاہر کر دیا ہے۔ وزارت خارجہ کی ہدایت کے مطابق بیرون ممالک میں موجود بنگلہ دیشی سفارتخانوں اور ہائی کمیشنوں سے صدر محمد شہاب الدین کی تصویروں کو فوراً ہٹانے کو کہا گیا ہے۔ یہ حکم ملتے ہی کئی ممالک کے سفارتخانوں سے بنگلہ دیشی صدر کی تصویریں ہٹا بھی دی گئی ہیں۔ حالانکہ اب تک یہ صاف نہیں ہو پایا ہے کہ آخر حکومت نے ایسا قدم کیوں اٹھایا۔
کئی ممالک میں بنگلہ دیشی سفارتخانوں سے صدر محمد شہاب الدین کی تصویر ہٹائے جانے کی خبر باہر آتے ہی سوشل میڈیا پر ہلچل مچ گئی ہے۔ لوگ سوال اٹھانے لگے ہیں کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ صدر کو بھی ان کے عہدہ سے ہٹایا جانے والا ہے؟ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال 5 اگست کو شیخ حسینہ حکومت کے زوال کے بعد ملک و بیرون ملک کے کئی مقامات سے شیخ حسینہ اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کی تصویریں بھی ہٹا دی گئی تھیں۔ لوگ خود سفارتخانوں میں گھس کر تصویریں اتار لے گئے تھے۔
بہرحال، بی بی سی کی ایک خبر کے مطابق کچھ کو حکومت سے براہ راست فون پر کہا گیا، تو کچھ سفارتخانوں کو کسی طرح کی ہدایت فی الحال نہیں ملی ہے۔ لندن ہائی کمیشن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جمعہ کی شب وزارت خارجہ سے حکم ملنے کے بعد وہاں سے صدر کی تصویر ہٹا دی گئی۔ یوروپ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے کم از کم 5 سفارتخانوں نے بتایا کہ انھیں زبانی ہدایت کے بعد تصویریں ہٹانی پڑیں۔ سابق سکریٹری اے کے ایم عبدالاول مجومدار نے کہا کہ پہلے قانون میں صرف شیخ مجیب الرحمن کی تصویر لگانے کا اصول تھا، صدر کی تصویر ہٹانے کا نہیں۔ اگر حکومت ایسا چاہتی ہے تو تحریری حکم دینا چاہیے تھا۔
کولمبو سفارت خانہ کے ایک افسر کے حوالے سے بی بی سی نے لکھا ہے کہ ان کے یہاں پہلے ہی شہاب الدین، حسینہ اور مجیب کی تصویریں ہٹا دی گئی تھیں۔ بعد میں وزارت سے فون آیا کہ صدر کی تصویر بھی ہٹانی ہے، لیکن وہاں تو پہلے سے موجود ہی نہیں تھی۔ تہران سفارت خانہ میں صدر اور مشیر پروفیسر یونس دونوں کی تصویریں لگی تھیں۔ لیکن اتوار کو افسران نے دیکھا کہ دونوں تصویریں ہٹا دی گئی ہیں۔ سابق سفیروں کا کہنا ہے کہ کس کی تصویر لگانی ہے، اس کا حکم کابینہ دیتی ہے۔ حکومت جب چاہے فیصلہ بدل سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔