عراق: عوامی احتجاج جاری، ذی قار میں پولس دفتر پر دھرنا، ناصریہ میں پُلوں کی بندشہ

ناصریہ شہر میں ہفتے کی صبح مظاہرین نے الحضارات، النصر اور الزیتون کے پُلوں کو بند کر دیا ہے۔ دوسری جانب مظاہرین کی جانب سے ذی قار صوبے کی پولس کے ہیڈ کوارٹر کے آگے دھرنا جاری ہے

تصویر العربیہ ڈاٹ نیٹ
تصویر العربیہ ڈاٹ نیٹ
user

قومی آوازبیورو

عراق میں نجف اور ذی قار میں گذشتہ دو روز میں دورانِ احتجاج ہلاک ہونے والوں پر ہفتے کے روز سوگ کا سلسلہ جاری ہے۔ العربیہ کے نمائندے کے مطابق ناصریہ شہر میں ہفتے کی صبح مظاہرین نے الحضارات، النصر اور الزیتون کے پُلوں کو بند کر دیا ہے۔ دوسری جانب مظاہرین کی جانب سے ذی قار صوبے کی پولس کے ہیڈ کوارٹر کے آگے دھرنا جاری ہے۔ گذشتہ روز یہاں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی تھیں۔

جمعے کی شام عراق میں انسانی حقوق کے کمیشن نے ذی قار صوبے میں قتل و غارت کی نئی لہر سے خبردار کیا ہے۔ کمیشن نے مظاہرین کے نمائندوں، قبائلی عمائدین اور مذہبی شخصیات سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے تا کہ صوبے میں جاری خون ریزی کو روکا جا سکے۔ اس سے قبل نجف اور ذی قار میں مقامی انتظامیاؤں نے ملک کے جنوب میں ان دونوں صوبوں میں خون ریز تشدد کی لہر کے بعد 3 روز کے سوگ کا اعلان کیا تھا۔


جمعرات کے روز سے نجف (صوبے کا نام بھی نجف ہے) اور ناصریہ (ذی قار صوبہ) کے شہروں میں سیکورٹی فورسز اور مسلح عناصر کی فائرنگ کے نتیجے میں 70 مظاہرین اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ سیکڑوں زخمی بھی ہوئے۔ یکم اکتوبر سے شروع ہونے والے ملک گیر عوامی احتجاج کے دوران اب تک یہ تشدد کا خون ریز ترین واقعہ ہے۔

جمعے کی شام ناصریہ شہر میں شارع بغداد کے اطراف ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ اس سے قبل مقتولین کے لواحقین میں شامل مظاہرین اور قبائلی افراد کی پولس اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین نے پولس مرکز کا محاصرہ کر لیا اور 2 گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ اس صورت حال نے ذی قار صوبے کے پولس سربراہ زیدان القریشی کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ بعد ازاں قبائلی افراد کے ساتھ سمجھوتے کے تحت سیکورٹی فورسز کو واپس اپنے مراکز میں بلا لیا گیا اور انہیں مظاہرین پر براہ راست فائرنگ سے بھی روک دیا گیا۔

سوشل میڈیا پر سرگرم عراقی کارکنان نے اتوار کے روز سول نافرمانی کی کال دی ہے۔ توقع ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک میں دیالی، صلاح الدین، انبار، کرکوک اور نینوی صوبے شامل ہوں گے۔ یہ وہ صوبے ہیں جہاں دو برس قبل داعش تنظیم کے خلاف فوجی آپریشن ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ یہ صوبے ابھی تک مظاہروں اور احتجاج میں شریک نہیں ہوئے ہیں۔


یاد رہے کہ جمعے کے روز عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی جانب سے مستعفی ہونے کی پیش کش بھی عراق کے جنوب میں جاری تشدد کی لہر کو روک نہیں سکی۔ طبی ذرائع کے مطابق سیکورٹی فورسز نے ناصریہ شہر میں براہ راست فائرنگ کر کے کم از کم 21 مظاہرین کو موت کی نیند سلا دیا۔ اس سے قبل مظاہرین نے شہر میں پولس مرکز پر دھاوے کی کوشش کی تھی۔ بغداد کے وسطی علاقے میں بھی مظاہروں اور دھرنوں کے بیچ ایک شخص ہلاک ہو گیا۔

نجف شہر میں نامعلوم مسلح افراد نے مظاہرین کی جانب فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں وہ منتشر ہونے پر مجبور ہو گئے۔ عراقی عوام کی جانب سے سیاسی ذمے داران کی برطرفی، کوٹہ سسٹم اور بدعنوانی کو ختم کرنے اور معاشی حالات بہتر بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ رائٹرز کی جانب سے جمعے کے روز پولس اور ہسپتال ذرائع کے حوالے سے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق مظاہرین سے نمٹنے کے لیے سیکورٹی فورسز کی جانب سے اختیار کیے گئے پرتشدد طریقوں کے نتیجے میں 400 سے زیادہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کئی ہفتوں سے جاری احتجاج میں ہلاک ہونے والے 408 افراد میں اکثریت نہتے مظاہرین کی ہے۔

( العربیہ ڈاٹ نیٹ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔