ایران کو جوہری اسلحہ بنانے کی اجازت نہیں ملے گی: بلنکن

انٹونی بلنکن نے کہا کہ اگر ایران سفارت کاری کا راستہ ترک کرتا ہے تو جیسا کہ صدر بائیڈن کئی بار واضح کر چکے ہیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام متبادل موجود ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کر سکے۔

انٹونی بلنکن، امریکی وزیر خارجہ، تصویر آئی اے این ایس
انٹونی بلنکن، امریکی وزیر خارجہ، تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

واشنگٹن: امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے واشنگٹن کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل کی سلامتی کے حوالے سے امریکی عزم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ اگر ایران سفارت کاری کا راستہ ترک کرتا ہے تو جیسا کہ صدر بائیڈن کئی بار واضح کر چکے ہیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام متبادل موجود ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کر سکے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا معاملہ واشنگٹن کے لیے انتہائی اہم ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ایران کو کبھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز اسرائیل نواز لابی گروپ سے گفتگو میں کیا ہے، انھوں نے کہا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا امریکہ کے قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔ بلنکن نے امریکی اسرائیل تعلقات عامہ کمیٹی بتایا کہ ہمیں یقین ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔


انٹونی بلنکن نے الریاض اور جدہ میں مذاکرات کے لیے روانگی سے چند گھنٹے قبل خطاب میں کہا کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ معاہدۂ ابراہیم کے لیے پرعزم ہے، یہ اقدام سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں عرب ممالک کو یہودی ریاست کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ لیکن اب تک الریاض نے اس میں کوئی زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ حالانکہ اس نے اسرائیل کی تجارتی پروازوں کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دی ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ رابطے بھی ہوئے ہیں۔

بلنکن نے بتایا کہ خطے میں اسرائیل کا مزید انضمام زیادہ مستحکم، زیادہ محفوظ اور زیادہ خوش حال خطے اور زیادہ محفوظ اسرائیل میں مدد دیتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کو اس بات کی کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ البتہ ہم اس کام کے لیے پرعزم ہیں، جس میں سعودی اور خلیجی ممالک کے ہم منصبوں کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے اس ہفتے جدہ اور الریاض کا میرا دورہ بھی شامل ہے۔ تاہم انھوں نے مزید کہا کہ انضمام اور معمول کے تعلقات استوار کرنے کی کوششیں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پیش رفت کا متبادل نہیں ہے اور انھیں اس کی قیمت پر نہیں آنا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔