یورینیم افزودگی بند کرنے کی شرط پر امریکہ سے کوئی معاہدہ نہیں ہوگا: ایران
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اگر امریکہ یورینیم افزودگی روکنے کی شرط رکھتا ہے تو کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا، ایران اپنے جوہری پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹے گا

ایرانی وزیر خارجہ عراقچی / آئی اے این ایس
تہران: ایران کے وزیر خارجہ سعید عباس عراقچی نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ایران اپنے یورینیم افزودگی کے پروگرام کو ترک کرنے کی شرط پر امریکہ کے ساتھ کسی قسم کا جوہری معاہدہ نہیں کرے گا۔ عراقچی نے یہ بات روم میں ایران اور امریکہ کے وفود کے درمیان ہونے والے پانچویں دور کی بالواسطہ جوہری مذاکرات سے قبل ایرانی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔
انہوں نے کہا، ’’ابھی بھی ہمارے اور امریکہ کے درمیان بنیادی اختلافات باقی ہیں۔ امریکہ ایران میں یورینیم کی افزودگی پر یقین نہیں رکھتا۔ اگر ان کا مقصد افزودگی کو مکمل طور پر روکنا ہے، تو پھر کسی بھی قسم کا معاہدہ ممکن نہیں ہے۔‘‘
عراقچی کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی حکام کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایران اپنی سرزمین پر یورینیم افزودگی کا عمل مکمل طور پر بند کرے۔
تاہم ایرانی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی طرف نہ بڑھے، تو ایسا ممکن ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ’’ہم خود بھی جوہری ہتھیار نہیں چاہتے۔‘‘
چینی خبر رساں ادارے شِنہوا کے مطابق عراقچی نے اس امر کی تصدیق کی کہ 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والا جوہری معاہدہ فی الوقت مؤثر نہیں رہا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ختم ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق یہ معاہدہ، جسے باضابطہ طور پر ’’مشترکہ جامع عملی منصوبہ‘‘ (جے سی پی او اے) کہا جاتا ہے، اب بھی بحال کیا جا سکتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے زور دے کر کہا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام، خصوصاً یورینیم افزودگی کو نہیں چھوڑے گا۔
ایران اور امریکہ کے درمیان اپریل سے جاری مذاکرات میں تہران کے جوہری پروگرام اور امریکی پابندیاں ہٹانے پر تبادلہ خیال ہو رہا ہے۔ ان مذاکرات کے دوران امریکہ کی جانب سے بارہا یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایران اپنی یورینیم افزودگی کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر بند کرے، جسے ایران نے صاف مسترد کر دیا ہے۔
ادھر وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ایران کے ساتھ ممکنہ معاہدے پر تبادلہ خیال کیا ہے، جسے صدر ایک مثبت پیش رفت سمجھتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی میڈیا نمائندہ سچن لیوٹ نے بتایا، ’’جیسا کہ صدر نے مجھے اور آپ سب کو بتایا ہے، یہ معاہدہ دو رخ اختیار کر سکتا ہے۔ یا تو یہ ایک تعمیری سفارتی حل بنے گا یا ایران کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار کرے گا۔‘‘
یاد رہے کہ 2018 میں اپنے پہلے دورِ صدارت میں ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر 2015 کے معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی اور ایران پر دباؤ بڑھانے کے لیے ’’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی حکمت عملی اپنائی تھی، جو کامیاب نہ ہو سکی۔
اب ایک بار پھر صدارت سنبھالنے کے بعد، ٹرمپ ایک نیا معاہدہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران تعمیری طور پر مذاکرات میں شامل نہ ہوا تو اسے عسکری نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔