فلسطین کی فنڈنگ پر دوہرا معیار

عالمی برادری کا بڑا حصہ فلسطینیوں کے مسائل اور ان کے مصائب سے کس درجہ چشم پوشی اور بے دردی کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اس کا ثبوت فلسطین کو دی جانے والی رقم کے معاملے میں برتا جانے والا دوہرا معیار ہے

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

سراج نقوی

عالمی برادری کا بڑا حصہ فلسطینیوں کے مسائل اور ان کے مصائب سے کس درجہ چشم پوشی اور بے دردی کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اس کا ثبوت فلسطین کو دی جانے والی رقم کے معاملے میں برتا جانے والا دوہرا معیار ہے۔ دراصل کئی ممالک نے فلسطینیوں کی یہ امداد فی الحال روک دی ہے۔ امداد روکنے والے ممالک کو اقوام متحدہ نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک سینئر عہدیدار نے ان ممالک پر الزام لگایا ہے کہ وہ فلسطین کی فنڈنگ کے تعلق سے دوہرے معیار اپنا رہے ہیں۔

فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسکا البانیز نے اس معاملے میں مغربی ممالک کو خصوصاً نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی اندھی حمایت جاری رکھنے اور اس کے جرائم کے باوجود اسے دی جانے والی امداد جاری رکھنے والے فلسطینیوں کی مدد روک کر دوہرے معیار پر چل رہے ہیں۔ فرانسکا کا یہ بیان مغربی ممالک کے ذریعہ فلسطینی پناہ گزینوں کو دی جانے والی مدد روکنے کے تناظر میں آیا ہے۔ دراصل یہ امداد مغربی ممالک اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کی معرفت فلسطین کو دیتے ہیں۔ فرانسکا اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ہیں۔ فرانسکا البانیز نے غزہ میں جنگ جاری رہنے کے باوجود اسرائیل کے لیے ان ممالک کی حمایت جاری رہنے پر بھی سخت تنقید کی ہے۔ فرانسکا البانیز نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ کچھ ممالک کی جانب سے فلسطین کی فنڈنگ روکنے کا فیصلہ اقوام متحدہ کی ایجنسی کے 12ملازمین سے متعلق الزامات کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی مذکورہ عہدیدار کا الزام اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ دنیا خصوصاً مغربی ممالک نے کس طرح اسرائیل کی سرکاری دہشت گردی کے باوجود اس کے مفادات کا تحفظ اب تک کیا اور کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف مسلسل فلسطینیوں کے مفادات اور ان پر اسرائیل کی طرف سے ہونے والے مظالم کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل کس طرح غزہ میں فلسطینی شہریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ ان شہریوں میں معصوم بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد کی شہادت یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ اسرائیل کی یہ کارروائی اپنے حق تحفظ کے لیے نہیں بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی نیت سے کی جا رہی ہے۔ دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کے اسپتالوں اور فلسطینیوں کے پناہ گزیں کیمپوں کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہی ہے۔


دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ ان تنظیموں اور اداروں کے کارکنان کو بھی اسرائیلی فوج کے ذریعہ نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو غیر جانبدار ہیں اور صرف جنگ سے متاثر فلسطینیوں کو دوائیں یا غذائی امداد پہنچانے کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر راحت رسانی کے کام میں مصروف ہیں۔ عالمی ریڈ کراس سوسائٹی اور اقوام متحدہ کے کارکنوں کو صیہونی فوج کے دہشت گردوں کے ذریعہ قتل کیا جانا آخر کس قانون کے تحت جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ عالمی میڈیا ایجنسیوں کے نامہ نگاروں کو بھی بڑی تعداد میں اس جنگ میں اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں اپنی جان گنوانی پڑی ہے۔ اس کے باوجود اگر کچھ ممالک اسرائیل کو دی جانے والی امداد جاری رکھے ہوئے ہیں تو اسے ظلم کی کھلی حمایت کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے؟ دوسری طرف مظلوم فلسطینیوں کی امداد روکنا مغرب کی اہل فلسطین کے تعلق سے بد نیتی کا ہی ثبوت ہے۔ اسی لیے فرانسکا البانیز جو کچھ کہہ رہی ہیں اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

موصوفہ نے کہا، ’’حکومتوں نے خود ریاست (اسرائیل) کے ساتھ اپنے تعلقات کو معطل نہیں کیا، جس کی فوج نے غزہ کی پٹی میں ساڑھے تین ماہ میں 26 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے۔

فرانسکا البانیز کے مذکورہ بیان یا سخت تنقید پر اسرائیل کے طرفدار ممالک کیا موقف اختیار کرتے ہیں یہ تو وہی جانیں لیکن سچ بہرحال یہی ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی اس منافقانہ پالیسی نے ہی مشرق وسطیٰ کے حالات کو بگاڑنے اور اس خطّے کو آتش فشاں بنانے میں بڑا رول ادا کیا ہے لیکن اس صورتحال کے لیے صرف امریکہ اور مغربی ممالک کو ذمہ دار ٹھہرا دینے سے بات ختم نہیں ہو جاتی۔


اسرائیل جغرافیائی اعتبار سے مغربی ممالک کے مقابلے میں مسلم ممالک سے زیادہ قریب ہے۔ اگر ان ممالک میں سے چند ممالک کو بھی فلسطینیوں اور مسجد اقصیٰ کا خیال ہوتا تو بھی حالات ایسے نہ ہوتے جیسے کہ ہیں۔ کیا یہ کم شرم کی بات ہے کہ ان میں سے کئی ممالک میں امریکی فوجی اڈے ہیں اور اس طرح اسرائیل کو امریکی تحفظ فراہم کرانے میں یہ مسلم ممالک بھی آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ یہ تمام ممالک مالی اور اقتصادی اعتبار سے بہرحال کافی مضبوط ہیں، اس لیے اگر فلسطین کی فنڈنگ میں مغربی ممالک جانبداری اور منافقت سے کام لے رہے ہیں تو ان ممالک کی ذمہ داری ہے کہ یہ آگے آئیں اور فلسطین کی کم از کم مالی سطح پر بھر پور مدد کریں۔اسرائیل اور فلسطین کی فنڈنگ کے تعلق سے ایک اور نکتہ قابل توجہ ہے۔

اسرائیل تجارتی اعتبار سے دنیا کے اہم ممالک میں شامل ہے۔ اسلحہ کا بڑا سوداگر اور جدید تکنیک سے مالا مال ہے۔ اس کا فائدہ اسے مالی سطح پر مل رہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں صیہونی کمپنیاں اپنا کاروبار پھیلائے ہوئے ہیں اور یہ تمام کمپنیاں اسرائیل کو مستقل طور پر مالی امداد دیتی ہیں۔ امریکہ کی یہودی لابی تو مالی اعتبار سے اس قدر مضبوط ہے کہ اس کا پیسہ ہی امریکی معیشت اور سیاست کو کنٹرول کرتا ہے۔ ایسے میں اسرائیل کی مالی ضرورتیں جنگ کے تمام تر نقصانات کے باوجود فلسطین کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن جہاں تک فلسطین کا تعلق ہے تو دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیلی فوجوں کی بمباری نے غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے۔ فلسطین میں زخمیوں اور مرنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ فلسطینیوں کو اسرائیلی مظالم کے سبب بھکمری کا بھی سامنا ہے۔ جبکہ اسرائیل غزہ میں راحت کاری کے کاموں میں بھی رخنہ ڈال رہا ہے۔ اس لیے فلسطین کے حالات کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی تھی کہ عالمی برادری فلسطین کی فنڈنگ میں اضافہ کرتی لیکن اس کے برعکس مغربی ممالک نے فلسطین کو دی جانے والی مالی امداد کو معطل کر کے اپنی فلسطین دشمنی کا کھلا ثبوت دیا ہے۔

یہ کارروائی عالمی ادارہ صحت کی اس رپورٹ کے باوجود کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ پٹّی کے اسپتالوں میں ہر روز قحط کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ ادارے کے ملازمین سے جو رپورٹیں موصول ہو رہی ہیں ان کی بنا پر کہا جا رہا ہے کہ مریضوں کے لیے خوراک کی بڑھتی ہوئی قلت کے سبب ان مریضوں کو صرف ایک وقت کا کھانا مل پا رہا ہے لیکن ان سب باتوں سے جس طرح اسرائیل کو کوئی مطلب نہیں اسی طرح اسرائیل کے خیر خواہ ممالک بھی اس پر اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ نہ صرف اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں بلکہ جو برائے نام مالی امداد فلسطین کو دی جا رہی تھی اسے بھی معطل کر دیا گیا ہے۔ اس کا سبب سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ جس طرح اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کے منصوبے پر کام کرتے ہوئے غزہ میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مصروف ہے اسے تقویت دینے کے لیے امریکہ اور مغربی ممالک بھی یہی چاہتے ہیں کہ اگر حماس یا فلسطینیوں کو راست جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی تو پھر انھیں بھوکا ہی مار دیا جائے۔ فلسطین کی فنڈنگ کو معطل کرنا تو کم از کم اسی خیال کو تقویت دیتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔