اقتصادی محاذ پر اسرائیل سے جنگ کی اہمیت

امریکہ اور دیگر ممالک میں چلنے والی اسرائیلی کمپنیاں اب بھی اسرائیل کی جس طرح مد کر رہی ہیں اس کا موثر مقابلہ صرف اسرائیلی یا اس کی حامی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے ذریعہ ہی کیا جا سکتا ہے

<div class="paragraphs"><p>غزہ پٹی پر اسرائیلی حملہ / Getty Images</p></div>

غزہ پٹی پر اسرائیلی حملہ / Getty Images

user

سراج نقوی

فلسطین کی مزاحمت پسند تنظیم حماس اسرائیل کے خلاف بر سر پیکار ہے۔ حزب اللہ، ہوثی اور دیگر کئی مسلح گروپ بھی فلسطینیوں کے حق کی لڑائی میں حماس کے ساتھ ہیں۔ یہ جنگ کب تک چلتی ہے اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں یہ بات جتنی اہم ہے اتنی ہی اہم بات یہ بھی ہے کہ اقتصادی محاذ پر اسرائیل کو شکست دینے میں دنیا کی انصاف پسند طاقتیں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔

دراصل آج کی دنیا اور سفارتی ضابطوں کی موجودگی میں کسی بھی ملک کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ دوسرے کی آگ میں اپنے ہاتھ جلائے لیکن اس کے باوجود اپنے دوست ملک کی حمایت کوئی بھی ملک مختلف طریقوں سے کر سکتا ہے۔ اسرائیل کی حمایت میں امریکہ نے جس طرح اپنے اسلحہ اور جنگی جہاز اسے فراہم کرا کے اسرائیل کی فوجی طاقت بڑھائی ہے اس سے دنیا واقف ہے۔ اسی طرح ایران، شام اور لبنان سمیت کئی ممالک حماس اور فلسطینیوں کی مدد نہ صرف مالی سطح پر بلکہ اسلحہ اور دفاعی ساز و سامان کے ذریعہ بھی کر رہے ہیں اس کا اندازہ دنیا کو ہے۔ فریقین کے حامیوں کی یہ مدد ہی جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں مددگار ہوگی اس میں بھی شک نہیں لیکن اتنا ہی اہم محاذ اقتصادی محاذ بھی ہے، بلکہ آج کی دنیا میں اقتصادی جنگ اسلحہ کی جنگ سے بھی زیادہ اہم بن گئی ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں دنیا کے کمزور ممالک کو اپنا غلام بنانے کے لیے اب اسی اقتصادی جنگ کا سہارا لیتی ہیں اور کمزور ممالک کو جھکانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔


اسرائیل اور امریکہ کے آپسی رشتوں کی بات کریں تو یہ بات جگ ظاہر ہے کہ امریکہ نہ صرف دفاعی سطح پر اسرائیل کی مدد کر رہا ہے بلکہ اسرائیل کی اقتصادیات کو مضبوط بنانے میں بھی امریکی کمپنیوں کا بڑا رول ہے۔ دراصل امریکہ اور دنیا کے دیگر حصوں میں بیٹھ کر اپنے کاروبار چلانے والی اور یہودی ملکیت والی تقریباً تمام بڑی کمپنیاں اسرائیل کو بھی اپنے منافع کا ایک حصہ دیتی ہیں۔ اس میں کچھ غیر قانونی بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل ایک طرف اپنی ٹکنالوجی اور اسلحہ کے کاروبار سے او ر دوسری طرف اس پیسے سے ہی اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کا کام کر رہا ہے۔

جہاں تک ٹکنالوجی اور اسلحہ کے ذریعہ اسرائیل کی معیشت مضبوط ہونے کا تعلق ہے تو سب جانتے ہیں کہ سات اکتوبر کو حماس کے زبردست حملے نے اسرائیل کی مضبوط ٹکنالوجی اور موثر اسلحہ کے بھرم کو توڑ دیا ہے اور اس کا اثر اس کے دفاعی و ٹکنالوجی کے کاروبار پر نظر بھی آنے لگا ہے لیکن امریکہ اور دیگر ممالک میں چلنے والی اسرائیلی کمپنیاں اب بھی اسرائیل کی جس طرح مد کر رہی ہیں اس کا موثر مقابلہ صرف اسرائیلی یا اس کی حامی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے ذریعہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ حماس کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کو اگر روکنا ہے تو یہ کام اسرائیل سے اپیلوں اور سفارتی دباؤ کی بنا پر نہیں ہو سکتا۔ جس ملک کو کئی بڑی عالمی طاقتیں بھرپور حمایت دے رہی ہوں، جس ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے میں دنیا بھر کی یہودی ملکیت والی کمپنیوں کا پیسہ کام آ رہا ہو اس کی طاقت کے زعم کو توڑنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسرائیلی اور اسرائیل کو مدد پہنچانے والی کمپنیوں کی مصنوعات کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کیا جائے۔ اہل تشیع کے مرجع تقلید اور روحانی لیڈر آیت اللہ سیستانی نے یہ جنگ چھڑنے کے بعد ہی اس طرف توجہ کرتے ہوئے تمام عالم اسلام سے اسرائیلی مصنوعات کا استعمال بند کرنے کی اپیل کی تھی اور ان کے استعمال کو حرام تک قرار دیا تھا۔ اس اپیل پر مسلمانوں کے تمام مسالک نے لبیک کہتے ہوئے جس طرح اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا اس نے بہت سی کمپنیوں کو اپنی تجارتی حکمت عملی بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آیت اللہ سیستانی اور عالم اسلام کے دیگر لیڈروں نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کر کے باقی انصاف پسندوں کو بھی یہ راستہ دکھا دیا کہ اگر ان کے لیے اسرائیل کے خلاف میدان جنگ میں جا کر لڑنا ممکن نہیں تو وہ اسرائیلی مصنوعات کا استعمال ترک کر کے بھی فلسطینی کاذ کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کی مخالفت موثر ڈھنگ سے کر سکتے ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اس طرح کی اپیلوں کا دائرہ آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اسرائیلی کمپنیوں کا مالی بحران بھی بڑھ رہا ہے۔ مشہور امریکی کافی کمپنی ’اسٹار بکس‘ کو اس بائیکاٹ کے نتیجے میں جس مالی بحران سے گزرنا پڑ رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ کمپنی چند روز میں ہی بڑے مالی خسارے سے دوچار ہو گئی ہے اور مجموعی اثاثوں کا 9.4فیصد گنوا چکی ہے۔ کمپنی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ یہ حالات اور بھی کئی کمپنیوں کے ہیں۔


ان حالات کے درمیان ہی یوروپی یونین کے فلسطینی امور کے ذمہ دار ڈپٹی سکریٹری جنرل محمد صوبیح کی اپیل نے اسرائیلی حمایت میں لگی کمپنیوں کو پریشان کر دیا ہے۔ جنرل صوبیح نے اسرائیلی مصنوعات کی مہم کو مزید موثر بنانے کی اپیل کی ہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ ”فلسطینی مزاحمت کو مضبوط بنانے کے لیے اسرائیلی مصنوعات کا عملی طور پربائیکاٹ کرنا ہوگا۔“صوبیح خصوصاً عرب ممالک میں اس بائیکاٹ کی مہم کو زیادہ موثر بنائے جانے پر زور دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بائیکاٹ سونامی طرح کے اثرات پیدا کریگا،اسرائیلی بینکوں کو پہلے ہی سے خدشات لا حق ہیں۔صوبیح عرب ممالک کی روز مرہ کی مصنوعات کے استعمال کو بھی فروغ دینے کے حق میں ہیں۔قابلِ ذکر ہے کہ عرب حکمراں فلسطین کی حمایت کے تعلق سے بھلے ہی پس و پیش میں ہوں،یا منافقانہ پالیسی پر گامزن ہوں،لیکن جہاں تک عرب عوام کا تعلق ہے تو ان کی طرف سے بھی اسرائیلی کمپنیوں کے سامان اور ان کی اشیائے خوردنی نہ خریدنے کی خبریں آرہی ہیں۔

ظاہر ہے عرب عوام اپنی حکومتوں کا موقف بدلوانے کے معاملے میں تو کچھ نہیں کر سکتے لیکن اسرائیلی اشیاء کا استعمال ترک کرنے کے معاملے میں وہ آزاد ہیں اور وہ ایسا کر بھی رہے ہیں لیکن جنرل صوبیح اسے زیادہ موثر بنانا چاہتے ہیں اور یہ درست بھی ہے۔ جب حالات یہ ہوں کہ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں اسرائیلی فوج کی جارحانہ جنگی کارروائیوں پر خاموش ہوں، جب غزہ میں شہریوں کی شہادت کے واقعات بڑھ رہے ہوں، جب عن النصیرہ اور المغاری مہاجر کیمپوں، شمال میں جیبالیہ پناہ گزیں کیمپ اور خان یونس و رفح کے شہروں پر بھی ہوائی حملوں کا سلسلہ دراز کرکے تمام جنگی اخلاقیات کو پامال کیا جا رہا ہو اور اسرائیل حامی ممالک انسانیت کے قتل کا یہ تماشہ دیکھ رہے ہوں تو ضروری ہے کہ اسرائیل کو اقتصادی محاذ پر شکست دینے کے لیے اس کے کاروباری مفادات کو نشانہ بنایا جائے۔ ’حرمت مسجد اقصیٰ کانفرنس‘ کے اعلامیہ میں بھی عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ پوری طرح اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ ہندوستان کی کئی تنظیمیں بھی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم میں سرگرم ہو گئی ہیں۔ حالانکہ ہندوستان میں اس مہم کی مکمل کامیابی کی راہ میں کئی رکاوٹیں بھی ہیں اس کے باوجود محدود سطح پر ہی بائیکاٹ کا یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور کچھ مخصوص علاقوں میں اس کے اثرات بھی نظر آ رہے ہیں۔


یہ تمام حالات اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسرائیلی جارحیت کی دھار اب اس کی اقتصادیات کو کمزور کر کے کند کرنے کی مہم زور پکڑ رہی ہے۔ اسرائیل کو حاصل مغربی ممالک کی حمایت اور مشرق وسطیٰ کے عرب حکمرانوں کی بے عملی کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری بھی ہے کہ صرف اسلحہ کی جنگ میں اسرائیل کو شکست دینے کے بھروسے نہ رہا جائے بلکہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ جرم، گناہوں اور ظلم کی پرورش کرنے والی اس کی معیشت کو نشانہ بنایا جائے۔

(نوٹ: مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔