سمندر میں پھر ڈوب گئی انسانیت!

امریکہ پہنچنے کی کوشش میں گزشتہ سال سے اب تک سات بچے جان گنوا چکے ہیں، امریکہ میں کئی کیمپ کھلے ہوئے ہیں جہاں غیر قانونی اورمہاجرین کو پنجروں میں’ قید‘کرکے رکھے جانے کی خبر ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

بہتر مستقبل کا خواب لئے سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے دریا میں غرقاب اس والد اور اس کی23 ماہ کی معصوم بیٹی کی لاش انسانیت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان کی طرح ہے۔ سلواڈور کے آسکر البرٹو اور اس کی معصوم بیٹی کی لاش نے تین سالہ اس شامی بچے ایان کردی کی یاد دلادی ہے جو سال 2015 میں سمندر کنارے اوندھے منہ پایا گیا تھا۔ سال 2015 میں ہم نے اس تین سالہ بچے کی لاش کو دیکھا تھا اور اب سلواڈور کے باپ بیٹی کی لاشیں دیکھ رہے ہیں، کیا ان برسوں میں دنیا کے دل میں پناہ گزینوں کے تئیں ذرا بھی رحم نہیں آیا ہے؟ انسانیت اور انسانوں کی نقل مکانی کو لے کر بہت سے سوال ہیں، جو دنیا کے مہذب معاشرے کو ازسر نو پریشان کررہے ہیں۔ آخر لوگ کیوں جان خطرے میں ڈال کر بھی اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر دیگر ممالک میں ہجرت کرنے کو مجبور ہیں؟ کیا انہیں اپنے ہی ملک میں بہتر حالات فراہم کرنے کے لئے ضروری اقدامات کئے گئے ہیں؟

سلواڈور کے اس پریشان حال شہری اوراس کی کمرمیں شرٹ سے بندھی مردہ بیٹی کی دلخراش تصویرنے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ مہاجرباپ اپنی بیٹی کے ساتھ سرحد عبور کرتے ہوئے امریکہ میں داخل ہونا چاہتا تھا لیکن دونوں ہی دریائے ’ریو گرانڈے‘ میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ دل دہلا دینے والی یہ تصویر شمالی امریکہ میں مہاجرین سے متعلق بدترین سیاست کی ایک مثال کہی جاسکتی ہے۔ باپ بیٹی کے چہرے اس سرحدی دریا کے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دل میں بہتر مستقبل کا خواب لئے گھر سے نکلنے والے اس باپ اور اس کی بیٹی کی لاشیں پیر کے روز میکسیکو کے علاقے میٹامورس سے ملیں۔اس واقعہ سے پوری دنیامیں غم وغصہ ہے کہ کس طرح مہاجرین اپنی زندگی کوخطرے میں ڈالنے پرمجبور ہیں۔ میکسیکو کے حکام کے مطابق آسکرالبرٹو اور اس کی 21سالہ اہلیہ تانیا اے نے السلواڈورسے بھاگ کر اتوار کومیکسیکو سے امریکہ میں داخل ہونے کے لئے یہ دریا عبور کرنے کا ارادہ کیا۔ اس دریا کو عبور کرنا خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ والد نے اپنی چھوٹی بیٹی والیریا کو اپنی ٹی شرٹ کے نیچے کمر پر اپنے ساتھ چمٹا رکھا تھا تاکہ وہ محفوظ رہے لیکن تیز لہریں دونوں کو ہی بہا کر لے گئیں اور 21 سالہ تانیا کی آنکھوں کے سامنے اس کی بیٹی اور خاوند ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس سے جدا ہو گئے۔میکسیکو کی حکومت کو ان دنوں مہاجرین کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔


دنیا میں پچاس سے زیادہ متاثرہ، پسماندہ ممالک سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ یونائٹیڈ اسٹیٹ امریکہ تو خاص طور پر یورپ، افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکی ممالک کے ضرورت مند لوگوں کے لئے پہلی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ پہنچنے کی کوشش میں گزشتہ سال سے اب تک سات بچے جان گنوا چکے ہیں۔ امریکہ میں کئی کیمپ کھلے ہوئے ہیں، جہاں غیر قانونی اورمہاجرین کو پنجروں میں’ قید‘کرکے رکھے جانے کی خبر ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں امریکہ میں قائم کئے گئے کم سن مہاجرین کے کیمپوں کی صورتحال کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ باوجوداس کے انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والا امریکہ غیرانسانی سلوک سے دستبرار ہونے کوتیارنہیں ہے۔ ان کیمپوں میں کئی چھوٹے بچوں کو ان کے والدین کے بغیر رکھا گیا ہے اور انہیں مناسب طبی سہولیات بھی فراہم نہیں کی جاتیں۔

دہائیوں سے امریکہ آسانی سے آتے جاتے رہے ممالک میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ امریکہ جانا اوروہاں آباد ہونا اب مشکل ہو جائے گا۔ ایسے میں نئی نئی آبادی روز امریکہ کا رخ کر رہی ہے۔ یہ صورت حال پوری دنیا کے لئے افسوسناک ہے۔ متضاد ترقی نے خوشحالی کے چند جزائر پیدا کر دیئے ہیں جو لوگوں کو متوجہ کر رہے ہیں۔ یہ اس اقتصادی پالیسی کا بھی نتیجہ ہے جسے اقوام متحدہ یا عالمی بینک یا دیگر بین الاقوامی کرنسی اداروں نے آگے بڑھایا ہے۔


دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، امریکہ کے آس پاس ہی بدحالی، غربت، غیر موجودگی کا اندھیرا ہے۔ میکسیکو سے شام تک کئی ممالک ہیں جو وسائل اور ترقی کی دوڑ میں نسبتاً زیادہ پچھڑ رہے ہیں۔ ایسے میں امریکہ کو خود ہی ان ممالک کی ترقی میں شریک بننا چاہئے تھا۔ ان ممالک میں بھی امریکہ کے متوازی ترقی ہوتی تو آج امریکہ کو غیر قانونی پناہ گزین کے مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ایسے متعدد ممالک ہیں جن کی حکومتوں نے اپنی ناکامی کا بوجھ اپنے آس پاس کی نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ اورمحفوظ ممالک کے ماتھے ڈال رکھا ہے۔ جنوبی ایشیا میں روہنگیا کے مسئلے کو اگر ہم دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ کہیں نہ کہیں نفرت کی سیاست اور اقتصادی سامراج نے بھی لوگوں کو پناہ گزین بننے کے لئے مجبور کیا ہے۔

دنیا کے ممالک کوشش کریں تو اس ’آفت‘ پرقابو پاسکتے ہیں۔ جاپان کے اوساکا میں گزشتہ روزاختتام پذیرجی -20 چوٹی کانفرنس میں شامل ممالک کو اپنے اپنے مفاد کے لئے جوڑتوڑ کرنے کے ساتھ ہی دنیا کے اس دردکوبھی محسوس کرنا چاہئے تھا۔ جی -20 میں حصہ لینے والے امیر ممالک کے طاقتور سربراہان کو مردہ باپ بیٹی کی تصویر ضرور دیکھنی چاہئے تھی۔ غیرمتوازی معاشی ،سیاسی، تعلیمی ترقی بھی ایک بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ جو ملک خود کو ترقی یافتہ اورمحفوظ مان رہے ہیں، وہ بھی کب تک خیر منائیں گے؟ جی -20 اور اقوام متحدہ جیسے قابل اداروں کواعلیٰ سطح وسیع القلبی کامظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ کسی انسان یا انسانیت کے ایسے ڈوبنے کی نوبت پھر نہ آئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Jun 2019, 8:10 PM