غزہ بحران: عالمی سفارتکاری اور سیاسی لاپرواہی کے سامنے بے بس انسانیت

غزہ میں دو سال سے جاری بحران میں 65 ہزار سے زائد ہلاک، لاکھوں زخمی اور بھوک سے مبتلا؛ عالمی برادری کی بے حسی، غربت اور جنگ کے خلاف احتجاجی کوششیں جاری ہیں

<div class="paragraphs"><p>غزہ بحران / اے آئی</p></div>
i
user

اشوک سوین

تقریباً دو سال سے غزہ شدید بحران سے میں دوچار ہے اور دنیا اس قدر بے حس ہے کہ عالمی سفارتکاری کی چالاکی کی پردہ پوشی ختم ہو چکی ہے۔ غزہ میں اب تک 65 ہزار سے زائد فلسطینی جان بحق، 1.63 لاکھ زخمی اور پانچ لاکھ لوگ بھوک کی لپیٹ میں ہیں۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ 134 بچوں سمیت تقریباً 400 افراد غذائی قلت سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے، اس کے اسپتال، گھر اور اسکول تباہ ہو چکے ہیں، صحافیوں کو خاموش کرایا گیا اور لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔

ذاتی دفاع کے نام پر اسرائیل نے لبنان، اردن، شام، یمن، ایران اور حال ہی میں قطر پر بھی بمباری کی ہے۔ پھر بھی اقوام متحدہ خاموش ہے۔ مغربی ممالک اسرائیل کے دفاع کے دعوے کرتے ہیں اور تل ابیب کو جوابدہ بنانے سے گریز کرتے ہیں، جبکہ وہی ممالک اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ مذاکرات کی ناکامی یا سفارتی شکست نہیں، بلکہ عالمی سفارتکاری کا اخلاقی فقدان ہے۔

اسرائیل کی منصوبہ بندی واضح ہے: غزہ پر مکمل قبضہ، فلسطینیوں کو مستقل طور پر نکال دینا اور فلسطینی ریاست کو مٹانا۔ وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کھلے عام قبضے کی بات کرتے ہیں، جبکہ دائیں بازو کے حامی غزہ میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور فلسطینیوں کو خود وہاں سے جانے پر مجبور کرنے میں مصروف ہیں۔

جنونی اظہار رائے، رنگ و نسل پرستی اور نسل کشی کی حقیقت کو چھپا نہیں سکتی۔ اسرائیل نے غزہ کے 75 فیصد حصہ پر قبضہ کر لیا ہے اور زیادہ تر حصے کو بفر زون یا ممنوعہ علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ اب زمینی حملے سے قبل غزہ کو منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے اور فلسطینیوں سے شہر خالی کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات کی وارننگ دے چکی ہیں کہ زمینی حملہ انتہائی تباہ کن ہوگا۔


انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ اسکالرز کے مطابق اسرائیل کی کارروائی 1948 کے کنونشن کے تحت نسل کشی کی تعریف میں آتی ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیل کے رہنماؤں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں اور ان پر جنگی جرائم اور بھوک کو ہتھیار بنانے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ پھر بھی اسرائیل کی بربریت جاری ہے کیونکہ اسے تحفظ، حوصلہ افزائی اور یہاں تک کہ انعام بھی دیا جا رہا ہے۔

غزہ میں ناقص سفارتکاری دیکھنے کو ملتی ہے۔ مغربی ممالک اسرائیل پر دباؤ ڈالنے سے گریز کرتے ہیں، حماس سے خود سپردگی کی توقع رکھتے ہیں اور اقوام متحدہ کے جنگ بندی کے منصوبوں کو روکتے ہیں۔ امریکہ بچوں کو بھوک سے مارنے والے ملک کے بجائے بین الاقوامی ججوں پر پابندی لگانے کی دھمکی دیتا ہے۔ یورپی ممالک جو یوکرین میں روس کی بربریت پر آواز بلند کرتے ہیں، اب غزہ کی نسل کشی کے سامنے صبر و توازن کا درس دے رہے ہیں۔

ابراہیمی معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والی عرب حکومتیں مغربی کنارے کی سرخ حدود کے بارے میں تنبیہ تو کرتی ہیں لیکن غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتی۔ ان کی یہ کمزوری محض حادثاتی نہیں، بلکہ ہتھیاروں کی فروخت اور تزویراتی اتحاد کی پیداوار ہے، جو بے گناہ لوگوں کی جانوں کی قیمت پر قائم ہے۔

بچے اس المیے کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ آج غزہ کے بچے اسکول جانے یا کھیلنے کا خواب نہیں دیکھتے بلکہ وہ اپنی آخری رسومات کی تیاری کرتے ہیں۔ حال ہی میں اداکار لیام کننگھم نے فاطمہ نامی ایک چھوٹی بچی کا ویڈیو دکھایا، جس میں وہ اپنی آخری رسومات کے لیے گانے گاتی ہے۔ چار دن بعد اس کی موت ہو گئی۔ دنیا کے تمام رہنما چاہیں جتنے بھی، اس کا کوئی مطلب نہیں اگر بچے اپنی موت کی تیاری خود کر رہے ہیں۔


اسرائیل نے منظم طریقے سے گندم کی گوداموں، بیکریوں اور امدادی قافلوں پر حملے کیے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن اور صحافی نشانہ بنائے گئے، تقریباً 270 صحافی ہلاک ہوئے، جو تمام فلسطینی تھے۔ امدادی جہاز ’میڈلین‘ اور ’ہندالا‘ کو بین الاقوامی پانیوں میں روکا گیا، سامان ضبط کیا گیا اور مسافروں کو حراست میں لیا گیا۔ اسرائیلی اہلکار بھوک کی خبروں کا مذاق اڑاتے ہیں، کہتے ہیں کہ اموات بڑھا چڑھا کر دکھائی جا رہی ہیں۔ کبھی بھوک کو ناقابل تصور جنگی جرم مانا جاتا تھا، اب یہ جیت کا حربہ بن گیا ہے۔

اس دوران، غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے سب سے بڑا سمندری قافلہ ’صمود فلوٹیلا‘ 31 اگست کو بارسلونا سے روانہ ہوا۔ 44 ممالک کے کارکن، ڈاکٹر، مذہبی رہنما اور صحافی 50 سے زیادہ جہازوں پر سوار ہوئے۔ انہیں معلوم تھا کہ انہیں روکا جا سکتا ہے، حملہ کیا جا سکتا ہے یا گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ پہلے بھی فلوٹلا پر حملے ہو چکے ہیں، مسافروں کے ہلاک ہونے کے واقعات ہیں۔ پھر بھی وہ آگے بڑھے۔ عربی لفظ صمود یعنی استقامت یہاں بالکل مناسب ہے۔ یہ لوگ پرامن نافرمانی کی اس روح کو دکھا رہے ہیں جسے اسرائیل کے بم بھی ختم نہیں کر سکتے۔

یورپی راجدھانیوں میں لوگ سڑکوں پر نکل کر اپنی حکومتوں کے دوغلے رویے کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ امریکی کیمپس میں پولیس کی لاٹھیاں اور کالج سے نکالے جانے کے خدشات کے باوجود طلبہ متحد ہیں۔ عالمی جنوب میں استعماری یادیں غزہ کے ساتھ یکجہتی کی جذبے کو مضبوط کر رہی ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت ہند اقوام متحدہ کے ان منصوبوں سے الگ رہی، جن میں اسرائیل پر پابندی کی درخواست کی گئی تھی۔ ہندوستان نے فلسطینیوں کے ساتھ کوئی واضح یکجہتی ظاہر نہیں کی، کیونکہ اس کے ’تزویراتی‘ مفادات نے اس کے ضمیر کو خاموش کر دیا ہے۔


اس دوران ایک پیچیدہ سفارتی کھیل چل رہا ہے، جس کے تحت ثالث قاہرہ، دوحہ اور واشنگٹن کے درمیان دورے کرتے رہتے ہیں۔ ایک طرف ایف-35 اور ہدفی بمباری ہے، دوسری طرف سرنگوں سے جوابی حملہ۔ ایک طرف بچے بھوک سے مر رہے ہیں، دوسری طرف لوگ گندم کے لیے بھیگ مانگنے پر مجبور ہیں۔ مذاکرات کی بظاہر کوشش کی جاتی ہے لیکن اسرائیل کے حامی فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے بنیادی مطالبہ مسترد کر دیتے ہیں۔ اسرائیل اب بھی غزہ پر قبضہ، آس پاس کو تباہ اور لوگوں کو نکالنے میں کامیاب ہو سکتا ہے لیکن اپنی قانونی اور اخلاقی حیثیت کھو چکا ہے۔

تاریخ کیا درج کرے گی؟ دنیا کے طاقتور ترین ممالک نے غزہ کی مکمل تباہی کی منصوبہ بندی کی، اقمار کی نظر کے سامنے بھوک اور موت کی منصوبہ بندی کی گئی، سفارتی ہاتھ بے کار رہے اور ایک آبادی کو ختم کر دیا گیا لیکن تاریخ ان کی ہمت کو بھی یاد رکھے گی، جنہوں نے خاموش رہنے سے انکار کیا؛ ان بچوں کو جنہوں نے اپنی آخری رسومات کو یاد کیا؛ صحافیوں کو جنہوں نے نسل کشی درج کی اور اپنی جان دی اور کارکنوں کو جنہوں نے خطرات کے سائے میں کھڑا ہونا منتخب کیا۔ اگر انسانیت خود کو بچا سکتی ہے تو وہ انہی مجاہدین کی وجہ سے ممکن ہوگا۔

(مضمون نگار اشوک سوین، سویڈن کی اوپسلا یونیورسٹی میں امن و تنازعات کی تحقیق کے پروفیسر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔