ملکہ الزبتھ دوم اور شہزادہ فلپ سے ان کی شادی

شہزادی الزبتھ اور ان کی بہن مارگریٹ کا استقبال کرنے والے کیڈٹس میں سے ایک ان کے کزن اور یونان کے شہزادہ فلپ بھی تھے اور یہ پہلا موقع تھا جب الزبتھ نے ان میں دلچسپی لی

ملکہ الزبتھ دوم اور شہزادہ فلپ سے ان کی شادی / Getty Images
ملکہ الزبتھ دوم اور شہزادہ فلپ سے ان کی شادی / Getty Images
user

قومی آوازبیورو

ملکہ الزبتھ دوم کا طویل دور حکمرانی کے بعد جمعرات کے روز انتقال ہو گیا۔ انہیں فرض کی ادائیگی اور اپنی زندگی کو اپنے تخت اور اپنے لوگوں کے لیے وقف کرنے کے عزم کے لئے یاد کیا جائے گا۔ ملکہ الزبتھ بہت سے لوگوں کے لیے تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں استحکام کی نشانی تھیں کیونکہ دنیا میں برطانوی اثر و رسوخ میں کمی آئی، معاشرے میں تیزی سے تبدیلی آئی اور بادشاہت کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ مشکلات میں بادشاہت کو برقرار رکھنے میں ان کی کامیابی اس لیے بھی قابل تعریف رہی کیونکہ ان کی پیدائش کے موقع پر کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ تخت ان کا مقدر بنے گا۔

الزبتھ الیگزینڈرا میری ونڈزر 21 اپریل 1926 کو لندن کے علاقے میفیئر میں بیرکیلی اسکوئر میں واقع ایک گھر میں پیدا ہوئیں۔ وہ جارج پنجم کے دوسرے بیٹے ڈیوک آف یورک البرٹ اور سابق لیڈی الزبتھ بؤس لیون کی پہلی اولاد تھیں۔ الزبتھ اور ان کی بہن مارگریٹ روز، جو سنہ 1930 میں پیدا ہوئی تھیں، نے گھر پر ہی تعلیم حاصل کی اور بہت پیار بھرے خاندانی ماحول میں پرورش پائی۔ الزبتھ اپنے والد اور دادا دونوں سے انتہائی قریب تھیں۔


چھ برس کی عمر میں الزبتھ نے گھڑ سواری سکھانے والے اپنے استاد کو بتایا کہ وہ دیہی زندگی گزارنا چاہتی ہیں جہاں ان کے ارد گرد بہت سے گھوڑے اور کتے ہوں۔ ملکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بہت کم عمری سے ہی انتہائی ذمہ داری کے احساس کا مظاہرہ کیا۔ مستقبل کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے ان کے بارے میں ایک بار کہا تھا کہ وہ ’اپنے بچپن میں ہی حاکمانہ انداز رکھتی تھیں۔‘

باوجود اس کے کہ وہ کبھی اسکول نہیں گئیں، ان کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور انھوں نے آئینی تاریخ کا بھی تفصیلی مطالعہ کیا۔ سنہ 1936 میں جارج پنجم کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے ڈیوڈ، ایڈورڈ ہشتم کے نام سے تخت نشین ہوئے۔ تاہم شادی کے لیے انہوں نے دو بار کی طلاق یافتہ امریکی والس سمپسن کا انتخاب کیا جو سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر ناقابل قبول تھا۔ سال کے اختتام پر وہ تخت سے دست بردار ہو گئے۔ تذبذب کے شکار ڈیوک آف یورک بادشاہ جارج ششم بن گئے۔ ان کی تاجبوشی سے الزبتھ کو اندازہ ہوا کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔


یورپ میں بڑھتی کشیدگی کے پس منظر میں نئے بادشاہ نے اپنی اہلیہ ملکہ الزبتھ کے ساتھ مل کر بادشاہت پر عوامی اعتماد بحال کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ان کی اس مثال پر ان کی بڑی بیٹی نے بھی عمل کیا۔ سنہ 1939 میں 13 برس کی شہزادی بادشاہ اور ملکہ کے ساتھ ڈارٹ ماؤتھ میں رائل نیول کالج کے دورے پر گئیں۔ ان کا اور ان کی بہن مارگریٹ کا استقبال کرنے والے کیڈٹس میں سے ایک ان کے کزن اور یونان کے شہزادہ فلپ بھی تھے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ان دونوں کی ملاقات ہوئی لیکن یہ پہلی بار تھا کہ الزبتھ نے ان میں دلچسپی لی۔

پرنس فلپ جب بھی نیوی سے چھٹی پر ہوتے تو اپنے شاہی رشتے داروں کو بلاتے اور سنہ 1944 تک، جب الزبتھ 18 برس کی تھیں، وہ واضح طور پر ان سے محبت کرنے لگی تھیں۔ وہ پرنس فلپ کی تصویر اپنے کمرے میں رکھتی تھیں اور دونوں میں خطوط کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔

نوجوان شہزادی نے عالمی جنگ کے اختتام سے پہلے ٹی ایس میں شرکت اختیار کی اور گاڑی چلانا اور لاری سروس کی تربیت حاصل کی۔ دوسری عالمی جنگ میں فتح کے روز وہ شاہی خاندان کے ساتھ بکنگھم پیلس آئیں کیونکہ ہزاروں لوگ یورپ میں جنگ کے خاتمے کا جشن منانے کے لیے وہاں جمع تھے۔


وہ بعد میں یاد کرتی تھیں کہ ’’ہم نے اپنے والدین سے پوچھا کہ کیا ہم باہر جا سکتے ہیں اور گھوم پھر سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہمیں خوف تھا کہ ہم پہچانے جائیں گے۔ مجھے نامعلوم افراد وائٹ ہال کی راہداریوں میں گھومتے پھرتے یاد ہیں۔ ہم سب اس وقت جوش کی ایک لہر میں بہتے چلے گئے۔‘‘

جنگ کے بعد ان کی شہزادہ فلپ سے شادی کی خواہش کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بادشاہ اپنی اس بیٹی کو کھو دینے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے، جس سے انہیں بہت زیادہ محبت تھی اور فلپ کو ایک ایسی اسٹیبلشمنٹ کے تعصب کا سامنا کرنا تھا جو ان کی غیر ملکی نسل کو قبول نہ کرتی۔ (بشکریہ بی بی سی، اردو)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔