کیا جاپانی مسکرانا بھول گئے ہیں؟ 4500 روپے دے کر کئی افراد کوچنگ میں سیکھ رہے ’مسکرانے کا طریقہ‘

گزشتہ تین سال میں بیشتر جاپانیوں کے سامنے یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ وہ پبلک لائف میں بغیر ماسک کیسے جائیں، یہی وجہ ہے کہ لوگ بغیر ماسک رہنا بھول چکے ہیں اور چہرے سے مسکراہٹ بھی غائب ہو چکی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>ماسک، تصویر بشکریہ ڈی ڈبلیوڈی</p></div>

ماسک، تصویر بشکریہ ڈی ڈبلیوڈی

user

قومی آوازبیورو

یوں تو مسکرانے کے لیے کوئی پیسے نہیں لگتے، لیکن جاپان میں حالات کچھ مختلف دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جی ہاں، جاپان میں کئی لوگ مسکرانا بھول گئے ہیں اور اب مسکرانے کی کوچنگ لینے کو مجبور ہیں۔ اس کے لیے وہ اچھے خاصے پیسے خرچ کر رہے ہیں اور اپنا قیمتی وقت بھی دے رہے ہیں۔ دراصل کووڈ بحران کے دوران جاپانیوں نے طویل مدت تک ماسک چہرے پر لگا کر رکھا اور کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس ماسک نے ہی جاپانیوں کے چہرے سے مسکراہٹ چھین لی ہے۔

رواں سال فروری ماہ میں ایک سروے ہوا تھا جس میں پتہ چلا کہ ماسک کی پابندی ہٹنے کے بعد بھی محض 8 فیصد جاپانیوں نے ہی ماسک پہننا چھوڑا۔ ماسک پہننے کی وجہ سے گزشتہ تین سال میں بیشتر جاپانی لوگوں کے سامنے اب یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ وہ پبلک لائف میں بغیر ماسک کے کیسے جائیں۔ گویا کہ حکومت نے ماسک نہ پہننے کی اجازت تو دے دی ہے، لیکن پھر بھی بیشتر لوگ ماسک کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بغیر ماسک کے لوگ رہنا بھول چکے ہیں اور چہرے سے مسکراہٹ بھی غائب ہو چکی ہے۔


بہرحال، میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹوکیو آرٹ اسکول کے درجنوں طلبا و طالبات ہاتھ میں آئینہ لیے مسکرانا سیکھ رہے ہیں۔ اپنی انگلیوں سے گالوں کو کھینچتے ہوئے یہ لوگ مسکرانے کی پریکٹس میں مصروف ہیں۔ ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ مسکرانے کے لیے آپ کو پیسہ دینا پڑے، لیکن اسمائل کوچ یعنی مسکرانے کی ادا سکھانے والے استاد کیکو کوانو کی کلاس میں شامل ہونے کے لیے لوگ فیس دے رہے ہیں۔

مسکرانے کا طریقہ سیکھنے والی ایک 20 سالہ طالبہ کہتی ہے کہ اس نے طویل مدت سے اپنے چہرے کی خلیات کا استعمال نہیں کیا ہے، اس لیے اسمائل کلاسز لینا ایک اچھی ورزش کی طرح ہے۔ طالبہ کا کہنا ہے کہ ماسک پہننے کی وجہ سے لوگوں کو مسکرانے کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور اب اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ کیکو کوانو ایک ریڈیو میزبان رہ چکی ہیں اور 2017 میں انھوں نے اسمائل کمپنی کی شروعات کی تھی۔ حالانکہ کووڈ بحران میں انھیں زیادہ مقبولیت ملی۔ وہ لوگوں کو مسکرانا سکھاتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ اس کے کیا کیا فائدے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگ ورزش خانہ جا کر اپنے جسم کے خلیات کو تو مضبوط کرتے ہیں، لیکن چہرے کو بھول جاتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ماسک پہننے کی پابندی ہٹنے کے بعد سے ہی ان کا بزنس پھلنے پھولنے لگا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کیکو کوانو ایک گھنٹے کے سیشن کے لیے تقریباً 55 ڈالر (تقریباً 4500 روپے) لیتی ہیں۔ وہ پورے دن کا ورکشاپ بھی چلاتی ہیں جس کے لیے وہ 80 ہزار جاپانی یین یعنی تقریباً 47 ہزار روپے فیس لیتی ہیں۔

اسمائل کوچ کیکو کوانو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ہالی ووڈ اسٹائل میں مسکرانا سکھاتی ہیں۔ ان کی کلاس کی اہم کشش ہی ہے ’ہالی ووڈ اسٹائل اسمائلنگ ٹیکنک‘۔ اس کے ذریعہ چہرے کو گول کر، آنکھیں چھوٹی کر ہنسنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ کوانو کا ماننا ہے کہ مغربی ممالک کے مقابلے میں جاپانی کم مسکراتے ہیں۔ جاپانی لوگوں غیر ملکی افراد سے بات چیت کرنے کے لیے اپنی آنکھوں کے علاوہ چہرے کا بھی استعمال کرنا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔