بانی انقلاب اسلامی کا عرفانی نقطہ نظر

انسان خود پسند اور خود خواہ ہے وہ صرف خود کو پسند کرتا ہے اور اگر کوئی اس راہ میں حائل ہوتا ہے تو اس کا دشمن ہوجاتا ہے۔ تمام عالمی جنگیں اسی وجہ سے واقع ہوئی ہیں۔ مومن کبھی ایک دوسرے نہیں لڑتے

<div class="paragraphs"><p>بانی انقلاب اسلامی کا عرفانی نقطہ نظر</p></div>

بانی انقلاب اسلامی کا عرفانی نقطہ نظر

user

نواب علی اختر

بانی انقلاب اسلامی امام خمینی ؒ ایک فقیہ، عارف، مدبر اور اخلاق اسلامی و انسانی سے مزین لاثانی شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے اپنی ذاتی و اکتسابی خصوصیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران میں ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس نے پوری دنیا میں ایک ولولہ پیدا کر دیا۔ اسلامی بنیادوں پر استوار ایسا انقلاب جس نے ایک طرف تو حق و انصاف کے متوالوں اور دبے کچلے لوگوں کو قوت قلب عطا کی، ان کے دلوں میں امید کا چراغ روشن کیا اور دوسری طرف ظلم و استبداد اور سامراجیت کے ایوانوں میں لرزہ پیدا کر دیا۔ سامراجیت نے اپنا نحس وجود خطرے میں محسوس کیا تو ایک محاذ آرائی کا آغاز ہوا۔ اسلام و کفر اور مستضعفین و مستکبرین کے درمیان محاذ آرائی، جو بدستور جاری ہے۔

4 جون سنہ 1989 کو علم و اخلاق کا پیکر خمینی بت شکن اس دنیا سے رخصت ہوا، مگر آج بھی اسکے فراق میں آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں۔ شک نہیں کہ انسان جب تک خدائے لازوال سے قلبی و روحی طور پر منسلک نہ ہو تب تک وہ دنیا کے کروڑوں دلوں میں حق و حقیقت و انصاف کا چراغ روشن کر کے انہیں اپنا گرویدہ نہیں بنا سکتا۔ اس وقت دنیا کے چپے چپے پر خمینیؒ بت شکن روح اللہ کا نام لینے والے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے موجود ہیں۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے تقریباً15 سال قبل عاشور کے دن امام خمینیؒ نے شاہ ایران اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا اور اسرائیل کو ایران اور اسلام دشمن قرار دیا۔اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ایک ہفتے کے بعد ہی آپؒ نے فلسطینی رہنماوں سے ملاقات کی اور فلسطین کے مسئلے کو ایران کی خارجہ پالیسی میں سر فہرست رکھا۔


امام خمینی ؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی فتح کے ساتھ ہی مغربی ایشیا میں آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں اور اس کی اہم خصوصیت اسرائیل اور امریکہ کے خلاف جدوجہد تھی۔امام خمینی ؒ نے اپنی قیادت کے ذریعے عالمی سامراج مخالف نظریات اور مزاحمتی محاذ کے قیام کا سنگ بنیاد رکھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ سامراج کے خلاف جدوجہد ہی مسئلے کا حل ہے اور اب آپؒ کی رحلت کے 34 سال بعد سب پر یہ واضح ہو گیا کہ مذاکرات اور سمجھوتہ فلسطین کے مسئلے کا حل نہیں بلکہ اسرائیل مزید گستاخ ہو گیا۔ امام خمینی ؒ نے کیپچولیشن بل کی مخالفت کی اس لئے کہ ایران میں پہلوی حکومت نے اس بل کے تحت امریکی فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کو عدالتی استثنیٰ دیا تھا۔ اس مخالفت کی وجہ سے امام خمینی ؒ کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی، پہلے انہیں ترکی پھر عراق اور اس کے بعد فرانس میں جلا وطن ہونا پڑا اور جلاوطنی14 سال تک جاری رہی۔

آج ایک بارپھر 4 جون کے موقع پردنیا کے گوش وکنار میں بانی انقلاب اسلامی امام خمینی ؒ کی 34 ویں برسی منائی جارہی ہے جواس بات کابین ثبوت ہے کہ انقلاب اسلامی دنیا کی دیگرتحریکوں میں امتیازی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے امام خمینی ؒ کاعرفانی نقطہ نظرکار فرما ہے۔عرفان کا مطلب یہ نہیں کہ انسان سب کچھ چھوڑ کر صرف خدا کی طرف متمرکز ہوجائے بلکہ انسان کا خدا کی طرف سے خلق خدا کی طرف پلٹنا اور پھر خلق خدا کے ساتھ خدا کی جانب سیرو سلوک کرنا عرفان کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے جو امام خمینیؒ نے ایک عارف سالک کی حیثیت سے عملاً کرکے دکھایا ہے۔


امام خمینیؒ جو بیک وقت سیاسی قائد بھی تھے اور دینی قائد بھی ،نے عوام الناس کے ساتھ الہٰی سفر طئے کرتے ہوئے اپنا سیاسی سفر جاری رکھ کربے نظیر کارنامہ انجام دیا ہے۔ انقلاب اسلامی خالص سیاسی اورمادی تبدیلی نہیں ہے بلکہ یہ ایک عرفانی اقدام تھا جو امام خمینیؒ نے انجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی ؒ کی برسی کے موقع پردنیا کے تمام گوش وکنار میں پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں اسی طرح ہندوستان کے مختلف حصوں میں جلسے اور پروگرام کرکے روح اللہ امام خمینیؒ کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے کیونکہ امام خمینیؒ نے ایران کے ساتھ ساتھ اقوام عالم کو تانا شاہی اور استکباری طاقتوں کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت اور حوصلہ دیا ہے۔

آپ کی نظر میں اسلام اور اسلامی حکومت دوسرے غیر توحیدی نظام کے برخلاف، انسان کے ذاتی، سماجی، مادی و معنوی ، تہذیبی، سیاسی، فوجی اور معاشی پہلوں پر نظر رکھتی ہے۔ اسلام کے بہت سے احکام عبادی سیاسی ہیں۔آپؒ کے عرفانی نظریات اور روایتی عرفان میں اگر چہ کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن ان میں کچھ مشترکہ عناصر بھی ہیں۔ مثال کے طور پر آپؒ کا ماننا ہے کہ پوری دنیا اسماء اللہ ہے۔ انسان نور ہے، دنیا کا کوئی بھی وجود مستقل حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ برے عناصر کو عطا کیا گیا وجود بھی رحمت ہے۔تمام تعریفیں اللہ کی طرف پلٹی ہیں۔ آپؒ کی نظر میں نفسانی تعلقات سے رشتہ توڑنا، عالم عرفان میں داخل ہونے کی پہلی شرط ہے۔ یہ سارے تنازعات اور جنگ و خونریزی سب حب نفس کی وجہ سے ہے۔ انسان خود پسند اور خود خواہ ہے وہ صرف خود کو پسند کرتا ہے اور اگر کوئی اس راہ میں حائل ہوتا ہے تو اس کا دشمن ہوجاتا ہے۔ تمام عالمی جنگیں اسی وجہ سے واقع ہوئی ہیں۔ مومن کبھی ایک دوسرے نہیں لڑتے۔


بانی انقلاب اسلامی کا عرفانی نظریہ روایتی عرفان سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ امام خمینیؒ کی نظر میں عرفان اور معاشرہ ایک دوسرے الگ نہیں ہیں اور اسی وجہ سے آپؒ فرماتے ہیں کہ: یہ جو کہا جاتا ہے کہ انبیا علیہم السلام صرف معنویات سے سرو کار رکھتے تھے اور حکومت و دنیا داری بری چیز ہے اور انبیاء واولیاء نے اس سے پرہیز کیا ہے اور ہم کو بھی ایسا کرنا چاہئے، یہ قابل افسوس غلطی ہے جس کے نتیجہ میں اسلامی ممالک تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے اور سامراجی طاقتوں نے وہاں پر قدم جما لئے۔

امام خمینی کی نظر میں اس مفہوم کو درک نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ظالم و جابر حکومتوں نے قرآن کو اپنے ظلم کو جائز ٹھہرانے کے لئے استعمال کیا اور یہ مقدس کتاب جو لوگوں کو ایک دوسرے سے متحد کرنے کے لئے نازل ہوئی تھی، اختلاف کا ذریعہ بن گئی یا پوری طرح سے معاشرہ سے نظر انداز کردی گئی۔ اما م خمینیؒ کی نظر میں عرفان کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ انسان اللہ تعالی تک پہنچنے کے لئے حکومت و دولت کو ٹھوکر ماردے بلکہ عرفان کا مطلب یہ ہے کہ انسان معاشرہ و سیاست میں وارد ہو تا کہ طاقت و دولت کو متوازن طریقے سے سب میں تقسیم کر سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔