عالمی صحت: وباؤں کی روک تھام کے مسودے پر اتفاق

مسودے کا مقصد وبائی امراض کی صورت میں بہتر تیاری، عالمی تعاون، مساوی طبی سہولیات، تحقیق اور صحت کے نظام کو مضبوط بنانا ہے تاکہ آئندہ نسلوں کو ایک محفوظ اور صحت مند دنیا فراہم کی جا سکے

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ / آئی اے این ایس
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ / آئی اے این ایس
user

مدیحہ فصیح

کووڈ۔19وبائی مرض نے عالمی نظام صحت میں اہم کمزوریوں اور تشخیص، علاج اور ویکسین تک رسائی میں سخت عدم مساوات کو بے نقاب کیا تھا۔ اس وائرس نے دنیا بھر میں تقریباً 70 لاکھ جانیں لیں، معیشتوں کو بری طرح متاثر کیا، اور پوری دنیا میں صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کو مغلوب کر دیا تھا۔ اس کے دوران ، تاریخ کی سب سے بڑی ویکسینیشن مہم کا آغاز کیا گیا ، جس میں اپریل 2023 تک عالمی سطح پر 13.3 ارب سے زیادہ خوراکیں دی گئیں۔

کووڈ۔19 کے نتیجے میں اور اس کی تباہی سے سبق حاصل کرتے ہوئے، دنیا میں وبائی بیماریوں سے نمٹنے اور ان پر قابو پانے کے اقدامات کو مزید موثر بنانے کے لیے ایک عالمی معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے جسے منظوری کے لیے آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی 'ورلڈ ہیلتھ اسمبلی' میں پیش کیا جائے گا۔ اس مسودے پر اتفاق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے زیراہتمام تین سال تک ہونے والی بات چیت کے بعد ہوا ہے۔ یہ ایک ایسے طریقہ کار کا خاکہ پیش کرتا ہے جس کے ذریعے وبائی بیماریوں کے خلاف بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے اور مستقبل میں عالمی صحت عامہ کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مساوات پر مبنی اقدامات میں مدد ملے گی۔

اس معاہدے کے لیے بات چیت دسمبر 2021 میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب کووڈ۔19 وبا عروج پر تھی۔ اس دوران 'ڈبلیو ایچ او' کے رکن ممالک نے وباؤں کے خلاف ایک بین الاقوامی معاہدہ تشکیل دینے پر اتفاق کرتے ہوئے اس حوالے سے انٹرگورمنٹل نیگوشی ایٹنگ باڈی (آئی این بی) یا بین الحکومتی مذاکراتی ادارہ قائم کیا۔ اس معاہدے کے مسودے پر اتفاق رائے قائم کرنے کے لیے رسمی بات چیت کے 13دور ہوئے۔


عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے اس مسودے کی منظوری کو تاریخی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ معاہدے پر اتفاق رائے دنیا کو محفوظ بنانے کی جانب بہت بڑا قدم ہونے کے ساتھ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ دور حاضر کی منقسم دنیا میں کثیر فریقی طریقہ کار قائم ہے اور مشترکہ مسائل و خطرات پر قابو پانے کے لیے مشترکہ اقدامات ممکن ہیں۔

مجوزہ معاہدے میں 'ون ہیلتھ' تصور کے تحت وباؤں کی روک تھام، قومی سطح پر طبی نظام مضبوط بنانے، بیماریوں کے پھیلاؤ کے خلاف مربوط مالیاتی طریقہ کار تشکیل دینے اور ہنگامی طبی حالات کے لیے مربوط عالمی سپلائی چین اور لاجسٹکس نیٹ ورک قائم کرنا شامل ہے۔ مسودے میں تحقیقی مقاصد کے لیے جرثوموں (پیتھوجن) تک رسائی اور طبی فوائد کے تبادلے کا نیا نظام قائم کرنے، ٹیکنالوجی و علم کی منتقلی اور صلاحیتوں میں بہتری لانے کے لیے تعاون میں اضافے پر زور دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، عالمی ہنگامی طبی حالات سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ قومی اور بین الاقوامی افرادی قوت کا قیام بھی اس معاہدے کے بنیادی نکات میں شامل ہے۔

مجوزہ معاہدے کے مسودے میں صحت عامہ سے متعلق فیصلوں میں قومی خودمختاری قائم رکھنے کی توثیق بھی کی گئی ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کو ہنگامی طبی حالات کے دوران لاک ڈاؤن، ویکسین مہمات یا سرحدیں بند کرنے جیسے اقدامات نافذ کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ یہ مسودہ 19 مئی کو شروع ہونے والی 78ویں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جو عالمی صحت پر اقوام متحدہ کا سب سے بڑا فورم ہے۔ منظوری کے بعد اسے رکن ممالک کی توثیق درکار ہو گی۔ معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک اس پر عملدرآمد کے قانوناً پابند ہوں گے۔ اطلاعات کے مطابق، امریکہ نے مسودے پر ہونے والی بات چیت کے حتمی دور میں شرکت نہیں کی۔ واضح رہے کہ امریکہ نے جنوری میں 'ڈبلیو ایچ او' کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا اور اس طرح وہ اس معاہدے پر عملدرآمد کا پابند نہیں ہو گا۔

انٹرگورمنٹل نیگوشی ایٹنگ باڈی (آئی این بی) کی معاون سربراہ پریشیئس متسوسو نے اس مسودے کو طبی مساوات کی جانب اہم قدم قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، بات چیت کے دوران مشکل وقت بھی آئے لیکن یہ مشترکہ احساس تمام مشکلات پر غالب رہا کہ وائرس سرحدوں کی پروا نہیں کرتے اور اس وقت تک وباؤں سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک کہ سبھی کو ان سے تحفظ نہ مل جائے۔ دوسری معاون سربراہ این کلیئر امپورو کے مطابق، اس معاہدے سے مضبوط تر اور مزید مساوی عالمی طبی تحفظ کی بنیاد ڈالی گئی ہے اور یہ طبی سلامتی، مساوات اور بین الاقوامی یکجہتی کے حوالے سے ایک تاریخی معاہدہ ہے۔


عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز نے مسودے پر بات چیت کرنے والی رکن ممالک اور 'آئی این بی' کی قیادت کو ان کی استقامت اور مشترکہ مقصد کے حصول کی کوششوں پر سراہا اور کہا کہ یہ مسودہ محض سفارتی کامیابی نہیں بلکہ معاہدے کے لیے کوششیں کرنے والوں کی مضبوطی، اتحاد اور دنیا بھر کی صحت و بہبود کے لیے غیر متزلزل عزم کا اظہار ہے۔ مستقبل کی جانب دیکھتے ہوئے، ٹیڈروز نے اس معاہدے کی طویل المدتی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ اس معاہدے کی اہمیت ہمارے موجودہ چیلنجز سے کہیں آگے ہے۔ یہ آنے والی نسلوں کے لیے بہت ضروری ہے، اس سے آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچے گا۔ آج وباؤں سے نمٹنے کی تیاری اور ان پر قابو پانے کے اقدامات کو بہتر بنا کر ہم اپنے بچوں کو محفوظ اور صحت مند دنیا منتقل کر سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔