اقوام متحدہ کے سامنے انسانی ضمیر کا قتل!
سامراجی طاقتوں کا ناپاک منصوبہ یہ ہے کہ مسلم معاشروں کو پسماندہ رکھ کر اسلامی ممالک کی دولت و ثروت کو لوٹا جائے

غزہ، لبنان اور ملک شام صہیونیوں کے ہولناک جرائم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، غاصب یہودیوں نے نہ صرف انسانی حقوق کو بازیچہ بنایا ہے بلکہ اس نے نام نہاد عالمی ادارے کی آنکھوں کے سامنے انسانی ضمیر کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ غزہ محصور ہے، اس کے ہر انچ پر بم گرائے گئے ہیں، غزہ وہ مقام ہے جہاں نہتی خواتین اور بچے ملبے تلے جان کی بازی ہار رہے ہیں اور وہاں کے اسپتالوں کو ادویات کی قلت اور بجلی کے نہ ہونے کا سامنا ہے، لیکن غزہ کو اقوام متحدہ کے ہوتے ہوئے حقِ حیات ہرگز نہیں دیا گیا۔
لبنان کو صہیونی ریاست کی وحشیانہ جارحیتوں میں اپنے پیاروں، کمانڈروں اور اپنے قائد کے چلے جانے کا غم برداشت کرنا پڑا ہے اور آج شام ایک طرف سے دہشت گردی کا زخم سہہ رہا ہے، عوام بدامنی کا شکار ہیں، لوگوں کو الاعلان سڑکوں پر سزائے موت دی جا رہی ہے، بستیوں پر حملے ہو رہے ہیں اور وہاں قتلِ عام ہو رہا ہے تو دوسری طرف سے یہودیوں نے اس ملک میں براہِ راست مداخلت کی ہے اور بمباریوں کا نشانہ بنایا ہے، اس کی حکمرانی اور سلامتی آج جعلی یہودی ریاست کے توسیع پسندانہ عزائم و مقاصد کے رحم و کرم پر ہے۔
ان تمام واقعات کے باوجود اقوامِ متحدہ کی عالمی تنظیم عدل و انصاف کا ترجمان ہونے کے بجائے ایک بے کردار تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس کے مختلف شعبے ’بشمول سلامتی کونسل‘ امریکی ویٹو کے ذریعے مفلوج ہو چکے ہیں، اس کا سیکریٹری جنرل بے فائدہ اور بے اثر بیانات کو کسی بھی عملی اقدام پر ترجیح دے رہا ہے۔ یہ عالمی ادارہ عملی طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور ان کی پالیسیوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پالیسی بھی یہی ہے کہ مظلوم کو جارح اور جارح کو مظلوم قرار دیا جا رہا ہے۔
موجودہ وقت میں صہیونی جرائم کو ’ذاتی دفاع‘ کے عنوان سے متعارف کرایا جا رہا ہے اور صہیونیوں کو مزید جرائم کی ترغیب دلائی جا رہی ہے اور سیکریٹری جنرل کو بھی اسی مشن پر کاربند رہنا پڑ رہا ہے۔ جناب کی نگاہ میں بھی اور اس کے ماتحت ادارے کے یہاں بھی حقیقت اور عدالت و انصاف کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایسے حال میں کہ غزہ کے مظلوموں کو خاک و خون میں تڑپایا جا رہا ہے، لبنان کے کھنڈرات یہودی ریاست کے جرائم کا ثبوت پیش کر رہے ہیں اور شام بھی غزہ کے انجام سے دوچار ہو رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کچھ بے روح اور ٹھنڈے سے بیانات جاری کر کے یہ جتانے کے لئے کوشاں ہے کہ اس نے گویا اپنے فرائض پر عمل کر لیا۔ کیا یہ وہی عالمی ادارہ نہیں ہے جس کا شعار اور اس کی تشکیل کا مقصد اور اس کا وعدہ یہ تھا کہ ’بنی نوع انسان کی اگلی نسلوں کو جنگ نامی بلا سے نجات ملے گی!‘ ایک وقت تھا جب مظلوم افراد اس عالمی ادارے کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے تھے لیکن آج غزہ، لبنان اور شام میں صہیونی ریاست اور امریکہ کے جرائم نے اقوامِ متحدہ کی متضاد پالیسیوں اور غیر انسانی رویوں کو طشت از بام کر دیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صہیونی وزیرِ اعظم نے اس سے قبل اپنے ایک ویڈیو پیغام میں شامی عوام سے کہا تھا کہ اسرائیل کو صرف اسد حکومت سے مسئلہ ہے جبکہ شام کے عوام کی جانب صرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے گا لیکن اسد حکومت گرنے کے دوسرے ہی روز شام کے 400 مراکز کو نشانہ بنایا گیا جن میں فوجی مراکز کے علاوہ سائنسی اور سماجی ادارے حتیٰ کہ بنیادی ڈھانچے کی تنصیبات بھی شامل تھیں اور یہ بمباریاں مسلسل جاری ہیں اور خود صہیونیوں کا اعتراف ہے کہ شام کی 80 سے 90 فیصد فوجی اور سائنسی تنصیبات اور پوری فضائیہ اور پوری بحریہ کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ اقوامِ متحدہ جس نے صہیونیوں کے ان جنون آمیز اقدامات کے سامنے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اگر ایسے ہی حملے فرانس کی سوربن یونیورسٹی یا امریکہ کے ایم آئی ٹی کالج پر کیے جاتے تو کیا یہ عالمی ادارہ اسی طرح خاموش تماشائی بنا رہتا؟ اگر امریکی اور یورپی سائنس دان ہلاک ہوتے تو اسی طرح لاپرواہی برتی جاتی؟ یہ واضح بات ہے کہ یونیورسٹی تعلیم اور تربیت کا مرکز ہے۔ مشرقی ثقافت اور اسلامی تہذیب میں مسجدوں کی طرح تعلیمی مراکز بھی محترم ہیں اور کسی کو بھی ان کی بے حرمتی کا حق حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا اس وقت پوری دنیا کی سائنسی برادری سے توقع ہے کہ علم و انسانیت دشمن صہیونیوں کے اس رویے کو روکنے کی بھرپور کوشش کرے اور اسے نظر انداز ہونے نہ دے۔
چنانچہ عالمی برادری کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہئے کہ اقوامِ متحدہ سے عدل و انصاف کی توقع ایک وہم اور مکمل طور پر بے جا ہے کیونکہ یہ تو خود بھی بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں قید ہے! چنانچہ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ دنیا مزید ان مفلوج اداروں کا سہارا نہ لے اور ایسے نظام کی طرف چلی جائے جو مظلوموں کی آواز بنے اور جارحین کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ہو جائے۔ اہم بات یہ ہے کہ خطے میں قتل و غارت گری بالخصوص مسئلہ فلسطین کے دوران محاذِ مقاومت کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہوا ہے اس نے صہیونیت کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انتہائی خطرناک ہتھیاروں کا استعمال کرنے کے باوجود اسرائیل اور اس کے ہمنوا اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پائے، وہیں محاذِ مقاومت نے اس جنگ میں وہ نقوش چھوڑے ہیں جو رہتی دنیا تک یاد کیے جائیں گے۔ مقاومت ایک ایمان اور تفکر ہے، ایک قلبی اور حتمی عزم و ارادہ ہے، مقاومت ایک اعتقادی مکتب ہے۔ جو چیز کچھ لوگوں کے ایمان کو تشکیل دیتی ہے وہ ایک معاہداتی قضیہ نہیں ہے، کہ میں کہہ دوں کہ یہ لوگوں کا ایمان کیوں ہے، یہ ایمان و اعتقاد دباؤ آنے سے نہ صرف کمزور نہیں ہوتا بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو جاتا ہے۔
محاذِ حق کے بارے میں وجودی جنگ کا ادراک، گہری نگاہ کا محتاج ہے۔ اگر آپ اسے نہیں سمجھیں گے تو نہیں سمجھ سکیں گے کہ محاذِ حق کے لئے وجودی خطرہ کیا ہے؟ اگر آپ کی سمجھ میں کوئی چیز آئی ہے تو دیکھ لیں کہ کیا یہ آپ کے تخیلات نہیں ہیں؟ ہر نقصان اور دراڑ ’وجودی خطرہ‘ نہیں کہلاتا۔ مغربی گنتاروں کے ذریعے حق کی حقیقت کا حساب و کتاب نہیں کیا جا سکتا۔ محاذِ حق بین الاقوامی قواعد اور رائے عامہ کو ملحوظ رکھتا ہے اور اپنے مقصد اور موقف کو آگے بڑھاتا ہے۔
یہ یاد رکھنے کی بھی شدید ضرورت ہے کہ اسرائیل کے ہاتھوں ایران، عراق، شام، فلسطین، لبنان اور عالمِ اسلام کے دیگر ممالک کے نامی گرامی سائنس دانوں کے قتل اور ان ملکوں کی سائنسی، صنعتی اور علمی مراکز اور تنصیبات کی تباہی کا اصل مقصد، ان ملکوں کی سائنسی، صنعتی اور معاشی ترقی کو روکنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ سامراجی طاقتوں کا ناپاک ارادہ یہ ہے کہ مسلم معاشروں کو پسماندہ رکھ کر اور پیچھے دھکیل کر انہیں مغربی ممالک بالخصوص امریکہ سے مکمل طور پر دست نگر بنا کر رکھیں اور اس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی ممالک کی دولت و ثروت کو لوٹا جائے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔