’پیرس معاہدے کے 10 سال بعد بھی اخراج کم کرنے کی رفتار سست‘؛ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں دعویٰ
اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ صنعتی دور سے عالمی درجہ حرارت میں پہلے ہی 1.3 ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہو چکا ہے اور اگر اخراج میں تیزی سے کمی نہیں آئی تو 1.5 ڈگری کا ہدف ہاتھ سنے نکل جائے گا

اقوام متحدہ نے پیرس معاہدے کی دسویں سالگرہ کے موقع پر ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جہاں دنیا کے ممالک گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں پیش رفت تو کر رہے ہیں لیکن یہ رفتار موسمیاتی بحران کے سب سے برے اثرات کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس رفتار کے لحاظ سے 1.5 ڈگری کا ہدف حاصل کرنا اب بھی مشکل محسوس ہو رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی کے ادارے کی منگل کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، جنوری 2024 سے ستمبر 2025 کے دوران 64 ممالک نے اپنے نئے ماحولیاتی منصوبے جمع کرائے ہیں۔ ان منصوبوں کے تحت 2019 کے مقابلے میں سن 2035 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تقریباً 17 فیصد کمی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ یہ پیش رفت حوصلہ افزا ہے، تاہم عالمی درجہ حرارت کو قابو میں رکھنے کے لیے مزید مؤثر اقدامات کی ضرورت باقی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ، روس، جاپان، برازیل، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نائیجیریا جیسے ممالک نے اپنے تازہ ترین منصوبے جمع کئے ہیں، جب کہ چین، ہندوستان، ایران، سعودی عرب، یورپی یونین اور انڈونیشیا جیسے بڑے اخراج کرنے والے ممالک نے ابھی تک ایسا نہیں کیا ہے۔ 64 ممالک سے اخراج 2030 میں 13.9 ارب ٹن سے کم ہو کر 2035 تک 13 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ رہ سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ موسمیاتی تبدیلی کے سربراہ سائمن اسٹیل نے کہا کہ پیرس معاہدے نے حقیقی پیش رفت کی ہے، لیکن اب مزید تیز رفتار اور منصفانہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق 73 فیصد ممالک نے موسمیاتی موافقت کو اپنے منصوبوں میں شامل کیا ہے جبکہ 89 فیصد نے جینڈر (صنف) اور نوجوانوں کے کردار کو اہمیت دی ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ صنعتی دور سے عالمی درجہ حرارت میں پہلے ہی 1.3 ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اگر اخراج میں تیزی سے کمی نہیںآئی تو 1.5 ڈگری کا ہدف ہاتھ سنے نکل جائے گا۔